کیا آپ ’کیپٹاگون‘ دوا کے بارے میں جانتے ہیں، جس کے سبب رواں سال سعودی عرب میں 144 لوگوں کو ملی پھانسی کی سزا؟
سعودی شہزادہ محمد بن سلمان اس نشے کی گولی کو معاشرے کے لیے خطرہ مانتے ہیں۔ اس لیے وہ بین الاقوامی تنظیموں کی تنیقد کے باوجود ڈرگس اسمگلر کو موت کی سزا دینے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔

سعودی عرب میں ان دنوں منشیات کی ایک گولی جان لیوا ثابت ہو رہی ہے، جس کا نام ’کیپٹاگون‘ ہے۔ یہ غیرقانونی نشہ آور گولی حال کے سالوں میں سعودی عرب کے اندر تیزی سے پھیلی ہے اور اس کے خلاف کارروائی بھی سخت کی گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2025 میں اب تک 144 لوگوں کو اس نشہ آور گولی کے استعمال کی وجہ سے موت کی سزا دی جا چکی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں دی گئی موت کی 217 سزاؤں میں سے 2 تہائی ڈرگس سے متعلق معاملوں میں ہوئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ایک وقت تھا جب کیپٹاگون نشہ آور گولی شام سے بڑے پیمانے پر اسمگل ہوکر آتا تھا۔ لیکن دسمبر 2024 میں بشار الاسد حکومت کے خاتمہ کے بعد احمد الشرع کی نئی عبوری حکومت نے اس کی جڑوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ جون 2025 میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک کی تمام کیپٹاگون کی فیکٹریاں بند کر دی گئی ہیں۔ اس کے باجود سعودی عرب میں اس کا اثر کم نہیں ہو رہا ہے۔
کیپٹاگون کو غریبوں کا کوکین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایمفیٹامن جیسا نشہ ہے جو مشرق وسطیٰ کے امیر طبقوں میں کافی مشہور ہے۔ خاص طور سے سعودی عرب کے رئیس نوجوان اس نشے کے عادی ہو چکے ہیں۔ حالات پر قابو پانے کے مقصد سے اس نشہ آور گولی کو فروخت کرنے والوں کو سیدھے پھانسی پار لٹکایا جا رہا ہے۔ اس نشہ آور دوا کی اسمگلنگ اور فروخت میں ملوث زیادہ تر افراد غیر ملکی تارکین وطن ہیں۔ مصر، پاکستان، ایتھوپیا اور شام جیسے ممالک کے باشندوں کو اسمگلنگ کے جرم میں براہ راست پھانسی پر لٹکایا جا رہا ہے۔ جون 2025 میں ہی 37 لوگوں کو ڈرگس سے متعلق معاملوں میں موت کی سزا دی گئی، جن میں سے 34 غیر ملکی شہری تھے۔
سعودی شہزادہ محمد بن سلمان اس نشے کی گولی کو معاشرے کے لیے خطرہ مانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر سخت کارروائی نہیں کی گئی تو یہ ڈرگس سعودی عرب کی معاشرتی بنیاد کو کھوکھلا کر دیں گے۔ اس لیے وہ بین الاقوامی تنظیموں کی تنیقد کے باوجود ڈرگس اسمگلر کو موت کی سزا دینے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ نشہ آور گولی ’کیپٹاگون‘ براہ راست شام سے آتی ہے۔ 2023 تک دنیا کا 80 فیصد کیپٹاگون شام میں ہی بنتا تھا۔ امریکی روزنامہ ’نیویارک ٹائمز‘ کی ایک تحقیقات میں سامنے آیا کہ شام کی بدتر ہوتی معاشیات کے لیے دوا آمدنی کا اہم ذریعہ بن چکا تھا۔ شام کے سابق صدر بشار الاسد کے بھائی مہر الاسد اس دوا کے کاروبار کے سب سے بڑے چہروں میں سے تھے۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود شام ایک نارکو-اسٹیٹ میں تبدیل ہو چکا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔