جو بائیڈن کی حلف برداری پر عالمی لیڈروں کے ملے جلے تہنیتی پیغامات

امریکہ کے نئے صدر جوزف بائیڈن کی حلف برداری پر مشرق ومغرب کے عالمی لیڈروں نے انھیں مبارک باد پیش کی ہے اور ان کے لیےملے جلے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں

جو بائیڈن حلف برداری / العربیہ ڈاٹ نیٹ
جو بائیڈن حلف برداری / العربیہ ڈاٹ نیٹ
user

قومی آوازبیورو

واشنگٹن: امریکہ کے نئے صدر جوزف بائیڈن کی حلف برداری پر مشرق ومغرب کے عالمی لیڈروں نے انھیں مبارک باد پیش کی ہے اور ان کے لیےملے جلے جذبات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے پارلیمان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں بائیڈن اور ان کی نئی انتظامیہ کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کو مضبوط بنانے اور اپنی مشترکہ ترجیحات پر کام کرنے کا منتظر ہوں۔ان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ، وبا کے بعد بہتر مستقبل کی تعمیر اور ہماری بین البراعظمی سکیورٹی کو مضبوط بنانا شامل ہے۔‘‘

یورپی کمیشن کی صدر اُرسلا وان دیر لیون نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے:’’ امریکہ واپس آگیا ہے اور یورپ ایک سابقہ اور آزمودہ کار شراکت دار سے دوبارہ روابط کے لیے تیار ہے تاکہ ہمارے اتحاد میں ایک نئی روح پھونکی جاسکے۔ میں جو بائیڈن کے ساتھ مل کر کام کرنے کی منتظر ہوں۔‘‘

جرمن صدر فرینک والٹر اسٹینمائر نے صدر بائیڈن کی حلف برداری کے موقع پر ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔ اس میں انھوں نے کہا کہ ’’آج جمہوریت کے لیے ایک اچھا دن ہے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں جمہوریت نے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔امریکہ میں ادارہ جاتی سطح پر اس کو تارتار کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود انتخابی ورکروں ، گورنروں ، عدلیہ اورکانگریس نے خود کو مضبوط ثابت کیا ہے۔آج جب جوبائیڈن صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس منتقل ہورہے ہیں تو مجھے بہت سکون ملا ہے۔میں یہ جانتا ہوں کہ جرمنی میں بہت سے لوگوں کے یہی احساسات ہیں۔‘‘


انھوں نے مزید کہا ہے کہ ’’بائیڈن کی انتخابی جیت دراصل جمہوریت کی انتہائی دائیں اور اس کے تین طریقوں کے مقابلے جیت ہے۔ یہ بڑے پیمانے پر فریب ، قومی تقسیم اور گالم گلوچ اور جمہوری اداروں میں تشدد ہے۔ پانچ سال قبل ہم نے یہ سوچا تھا کہ ٹرمپ ایک بُرا لطیفہ ہے لیکن پانچ سال کے بعد ہمیں یہ احساس ہوا ہے کہ انھوں نے تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہی کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔‘‘

اطالوی وزیراعظم جیوسپے کونٹے نے پارلیمان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ بائیڈن کی صدارت اور ان کے ساتھ مل کر فوری طور پر اٹلی کی جی 20 کی صدارت پر کام کے منتظر ہیں۔ہمارا ایک مشترکہ کثیرالجہت ایجنڈا ہے۔ یہ موسمیاتی تبدیلی سے گرین اور ڈیجیٹل تبدیلی اور سماجی شمولیت تک پھیلا ہوا ہے۔‘‘

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صدر جو بائیڈن کو براہ راست تہنیتی پیغام تو نہیں دیا ہے لیکن انھوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس اسلحہ پر کنٹرول کے نیواسٹارٹ معاہدے میں توسیع کے لیے تیار ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’ روس اور اس کے صدر اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے حق میں ہیں۔اگر ہمارے امریکی ساتھی اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی عزم کا اظہار کرتے ہیں تو ہم اس کا خیرمقدم کرسکتے ہیں۔‘‘


اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمالا ہیرس کو ان کی تاریخی حلف برداری پر مبارک باد دی ہے اور جوبائیڈن کو یہ یاددہانی کرائی ہے کہ ان کے درمیان تو برسوں پرانا یارانہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کو مزید مضبوط بنانے کے لیے آپ سے مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔میں اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان امن کو جاری رکھنا چاہتا ہوں اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنا چاہتاہوں۔ ان میں سب سے بڑا ایران سے درپیش خطرہ ہے۔‘‘

غزہ کی حکمراں فلسطینی جماعت حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ انھیں ٹرمپ کی رخصتی پر کوئی افسوس نہیں ہے۔وہ دنیا میں ناانصافی ، تشدد اور انتہا پسندی کو اسپانسر کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تھے اور وہ ہمارے عوام کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور قبضے کے براہ راست شراکت دار تھے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’ امریکی صدر جوزف بائیڈن کو ہمارے عوام کے خلاف گم راہ کن اور غیر منصفانہ پالیسیوں کا خاتمہ کرنا چاہیے اور خطے میں سلامتی اور استحکام کی نئی بنیادیں رکھنی چاہییں۔‘‘

بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    /* */