سوڈان میں نسل کشی کے دوران برطانوی اسلحے کا ہوا تھا استعمال، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں انکشاف
برطانیہ میں تیار چھوٹے اسلحوں کے ٹارگیٹ سسٹم اور بکتر بند گاڑیوں کے انجن سوڈان کے جنگی علاقوں سے ملے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سامان برطانیہ سے یو اے ای کو فروخت کیے گئے تھے۔

اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل (یو این ایس سی) کو کچھ ایسے دستاویزات ملے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ سوڈان میں جاری داخلی جنگ میں برطانوی اسلحوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ یہ اسلحے یا جنگی سامان ’ریپڈ سپورٹ فورس‘ (آر ایس ایف) نامی نیم فوجی ٹکڑی کے پاس ملے ہیں، جس پر نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اپریل 2023 میں سوڈانی مسلح فوج (ایس اے ایف) اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان جنگ شروع ہوئی تھی، جس میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں بھی پیش آئی تھیں۔
اقوا متحدہ کو حاصل دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ میں بنائے گئے چھوٹے اسلحوں کے ٹارگیٹ سسٹم اور بکتر بند گاڑیوں کے انجن سوڈان کے جنگی علاقوں سے ملے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سامان برطانیہ سے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو فروخت کیے گئے تھے، لیکن بعد میں یو اے ای نے انھیں آر ایس ایف کو پہنچایا۔ حالانکہ یو اے ای نے ان الزامات کو سرے سے خارج کر دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ایس اے ایف اور آر ایس ایف کی جنگ اب تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے۔ اس جنگ میں اب تک تقریباً 1.5 لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں اور 1.2 کروڑ لوگ اپنے گھروں سے بھاگنے کو مجبور ہوئے ہیں۔ تقریباً 2.5 کروڑ لوگ بھوک اور بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ آر ایس ایف اور سوڈانی فوج پر شہریوں کو نشانہ بنانے اور جنگی جرائم انجام دینے کا الزام ہے۔
موصولہ اطلاع کے مطابق جون 2024 اور مارچ 2025 کی 2 رپورٹس اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کو سونپی گئی ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ آر ایس ایف کو یو اے ای برطانوی اسلحے سپلائی کر رہا ہے۔ ان رپورٹس میں سوڈان کی راجدھانی خرطوم اور اس کے قریبی شہر اومدرمن سے لی گئی تصویریں شامل ہیں۔ تصویروں میں نظر آ رہے سامانوں پر ’ملیٹیک‘ نام کی برطانوی کمپنی کے لیبل ہیں۔ یہ کمپنی چھوٹے اسلحوں کے ٹریننگ اور ٹارگیٹ سسٹم بناتی ہے۔
برطانیہ کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق جنوری 2015 سے ستمبر 2024 کے درمیان یو اے ای کو فوجی ٹریننگ سے متعلق سامان کی برآمدگی کے لیے 26 لائسنس دیے گئے۔ ان میں 14 کمپنیاں شامل تھیں، جن میں ملیٹیک بھی تھی۔ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ کس کمپنی کو کون سا لائسنس ملا۔ سب سے فکر انگیز بات یہ ہے کہ 27 ستمبر 2024 کو اقوام متحدہ کو اس کے ثبوت ملے تھے، اور اس کے 3 ماہ بعد ہی برطانیہ نے یو اے ای کو اسی طرح کے سامان کے لیے ’اوپن انڈیویجوئل ایکسپورٹ لائسنس‘ جاری کیا۔ اس طرح کے لائسنس میں نہ تو برآمدگی کی کوئی حد ہوتی ہے اور نہ ہی یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامان آخر میں کہاں استعمال ہوگا۔
واضح رہے کہ برطانوی قانون صاف طور پر کہتا ہے کہ اگر اسلحوں کے غلط استعمال یا ناجائز استعمال کا خطرہ ہو، تو انھیں برآمد نہیں کرنا چاہیے۔ یو اے ای کو پہلے بھی اسلحوں کو لیبیا اور یمن جیسے ممالک تک پہنچانے کی تاریخ رہی ہے، جہاں اقوام متحدہ نے اسلحوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ برطانیہ میں رہنے والے دارفر نسل کے لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس پورے معاملے کی آزادانہ تحقیقات ہو، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ برطانوی تکنیک یا اسلحہ سوڈان کے بے قصور لوگوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔