آسٹریلیا: میلبورن میں ایک نوجوان نے یہودی عبادت گاہ کو کیا نذر آتش، پولیس نے حراست میں لیا
آتش زدہ یہودی عبادت گاہ کے بورڈ ممبر بنجامن کلین نے کہا کہ ’’یہ نہایت ہی چونکانے والا اور افسوسناک امر ہے کہ میلبورن میں ایک پُرامن عبادت گاہ کو غیرملکی دہشت گردوں کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا۔‘‘

آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں گزشتہ دنوں ایک یہودی عبادت گاہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس معاملے میں ایک شخص کو حراست میں لیا گیا تھا جس کی آج عدالت میں پیشی ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہودی عبادت گاہ کو نذر آتش کرنے والے نوجوان کو پولیس نے 27 اگست کو عدالت میں پیش کیا۔ پولیس کا الزام ہے کہ 3 نقاب پوشوں نے عبادت گاہ کے اندرونی حصے میں ایک مائع مادہ چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔ اس وجہ سے عبادت گاہ کو کافی نقصان پہنچا اور ایک شخص زخمی ہو گیا۔ آسٹریلیا نے اس حملے کے لیے ایران کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ گزشتہ ہفتہ 20 سالہ ملزم علی یونس پر اداس اسرائیل سنیگاگ پر ہوئے آتش زنی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ یونس کو 27 اگست کو ویڈیو لنک کے ذریعہ میلبورن مجسٹریٹ کورٹ میں پیش کیا گیا۔ سماعت کے بعد عدالت نے یونس کو پولیس حراست میں بھیج دیا۔
آتش زدہ یہودی عبادت گاہ کے بورڈ ممبر بنجامن کلین نے کہا کہ یہ نہایت ہی چونکانے والا اور افسوسناک امر ہے کہ میلبورن میں ایک پُرامن عبادت گاہ کو غیرملکی دہشت گردوں کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا اور اس پر حملہ کیا گیا۔ کلین کے مطابق ریاستی اور وفاقی حکام نے عارضی جگہ پر سیکورٹی بڑھانے میں مدد کی ہے، جہاں عبادت کرنے والے عارضی طور پر جمع ہوتے ہیں۔ دوسری جانب یہودی آسٹریلیائی لوگ کافی ڈرے ہوئے ہیں کہ اگلا نمبر ان کا ہو سکتا ہے۔
ملزم یونس کی عدالت میں پیشی ایسے وقت میں ہوئی جب ایک روز قبل ہی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے ایران کے ریولوشنری گارڈ پر ایک عبادت گاہ اور سڈنی کوشر ریسٹورنٹ، لوئس کانٹینینٹل کچن میں آگ لگانے کا الزام عائد کیا تھا۔ ایران نے منگل (26 اگست) کو اپنی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بگھائی کے ذریعہ آسٹریلیا کے الزامات کی تردید کی۔ انہوں نے ان حملوں کو آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد اسرائیل کے ساتھ حکومت کو درپیش چیلنجوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔ واضح ہو کہ سڈنی اور میلبورن آتش زنی کے معاملوں میں اب تک جن ملزموں کی عدالت میں پیشی ہوئی ہے، کسی کے بارے میں یہ حتمی اطلاع نہیں ملی ہے کہ اس کا تعلق ایران سے ہے۔ آسٹریلیائی سیکورٹی انٹیلی جنس تنظیم (اے ایس آئی او) کا کہنا ہے کہ اس کے پاس یہ ثبوت موجود ہے کہ حملوں کو ایران نے ہی انجام دیا ہے۔
یونس کے شریک ملزم میلبورن کے مغربی باہری علاقہ کے 21 سالہ جیووانی لاؤلو کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ لاؤلو کو گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اب بھی جیل میں ہے۔ ان پر آتش زنی، جان کو خطرے میں ڈالنے والی لاپرواہی اور کار چوری کا الزام ہے۔ سڈنی کے 2 افراد وین ڈین اوگڈین (40) اور جوان اموئی (26) پر بھی حملے کو انجام دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے اور وہ دونوں اب بھی حراست میں ہیں۔ دونوں ملزمان پر وکٹورین مشترکہ انسداد دہشت گردی ٹیم (جے سی ٹی ٹی) نے الزام عائد کیے تھے۔ اے ایس آئی او کے دائریکٹر جنرل مائک برگیس نے منگل کو کہا کہ ریولوشنری گارڈ نے آسٹریلیا میں ہوئے 2 یہودی مخالف حملوں میں اپنی شمولیت کو چھپانے کے لیے پراکسی کا استعمال کیا۔
قابل ذکر ہے کہ یہودی عبادت گاہ پر حملے کے بعد ایران کے ساتھ آسٹریلیا اپنے سفارتی تعلقات کو ختم کر رہا ہے۔ آسٹریلیا نے معطل کیے گئے ایرانی سفیر احمد سادیگھی کو منگل کی صبح سے 72 گھنٹے کے اندر آسٹریلیا چھوڑنے کا وقت دیا ہے۔ ان کے علاوہ 3 دیگر معطل کردہ ایرانی سفارت کاروں کو بھی ایک ہفتہ کا وقت دیا گیا ہے۔ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ پین وونگ نے بدھ کو ایران میں موجود تمام آسٹریلیائی شہریوں سے فوراً وہاں سے چلے جانے کو کہا اور مسافرین کو وہاں نہ جانے کی وارننگ دی، کیونکہ تہران میں اب آسٹریلیا کا کوئی سفارت خانہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ آسٹریلیائی سفارت کاروں کو ان کی سیکورٹی کے لیے کسی نامعلوم تیسرے ملک میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔