خلیجی ممالک کو امریکی اسلحہ فروخت روکنے کی کوشش

امریکی قانون سازوں نے امارات اور قطر سے اسلحہ سودوں کو امریکی خارجہ پالیسی کی بدعنوانی قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان معاہدوں کے ذریعے صدر ٹرمپ نے اپنے خاندان کو مالی فائدہ پہنچانے کی کوشش کی

<div class="paragraphs"><p>متحدہ عرب امارات میں امریکی صدر ٹرمپ / Getty Images</p></div>

متحدہ عرب امارات میں امریکی صدر ٹرمپ / Getty Images

user

مدیحہ فصیح

امریکی سینیٹرز کے ایک گروپ نے متحدہ عرب امارات اور قطر کو 3.5 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے اسلحہ کی فروخت روکنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ سودے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے خاندان کے مالی مفادات کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیے گئے ہیں اور ’امریکی خارجہ پالیسی کی بدعنوانی‘ کی واضح مثال ہیں۔ 15 مئی کو ڈیموکریٹ سینیٹرز کرس مرفی، کرس وان ہولن، ٹِم کین، برائن شاٹس اور آزاد سینیٹر برنی سینڈرز نے کانگریس میں دو ’قراردادِ عدم منظوری‘ پیش کیں۔ ان کا مقصد متحدہ عرب امارات کے ساتھ 1.6 ارب ڈالر اور قطر کے ساتھ 1.9 ارب ڈالر کے اسلحہ سودوں کو روکنا ہے، جن کی منظوری محکمہ خارجہ نے پہلے ہی دے دی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے لیے مجوزہ معاہدے میں چنوک ہیلی کاپٹرز، ایف-16 طیاروں کے پرزے، اور اپاچی و بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں کے پرزہ جات شامل ہیں۔ قطر کے لیے معاہدے میں ایم کیو-9 بی پریڈیٹر ڈرونز اور متعلقہ آلات شامل ہیں۔ سینیٹرز کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے قومی سلامتی کے بجائے صدر اور ان کے اہل خانہ کے کاروباری مفادات کے لیے کیے گئے ہیں۔

ایک اہم نکتہ متحدہ عرب امارات کی سرکاری حمایت یافتہ کمپنی ’ایم جی ایکس‘ کی طرف سے ٹرمپ خاندان کی پشت پناہی سے قائم کردہ (ورلڈ لبرٹی فنانشل) کی کرپٹو کرنسی ۔ اسٹیبل کائن کے ذریعے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان سے جڑا ہوا ہے، جس کا مقصد ’ بائننس‘ کرپٹو ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنا تھا۔ سینیٹرز نے اس معاہدے کو "کرپٹو کے بدلے اسلحہ" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مفادات کا تصادم اور بدعنوانی کی ایک واضح مثال ہے۔ سینیٹر کرس مرفی نے کہا: "ڈونالڈ ٹرمپ کو بادشاہوں جیسا سلوک پسند ہے، اور اسی لیے غیر ملکی حکومتیں انہیں خوش کرنے کے لیے لگژری جیٹ طیارے اور ان کے کرپٹو منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔"


اس تنازعے کا ایک اور اہم پہلو قطر کی طرف سے ٹرمپ کو عارضی طور پر ایئر فورس ون کے طور پر استعمال کے لیے 40 کروڑ ڈالر مالیت کا ایک بوئنگ 747 طیارہ پیش کرنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کسی غیر ملکی حکومت کی طرف سے کسی امریکی عہدیدار کو دی جانے والی سب سے مہنگی پیشکش ہے، جو سنگین مفادات کے ٹکراؤ کا باعث ہے۔ ٹرمپ نے اس پیشکش پر تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ جہاز انہیں نہیں بلکہ محکمہ دفاع کو دیا جا رہا ہے، اور اسے قبول نہ کرنا "بیوقوفی" ہوگی۔ قطر کے ساتھ ٹرمپ خاندان کے دیگر کاروباری روابط بھی زیرِ تنقید ہیں، جن میں ایک 5.5 ارب ڈالر کا ریئل اسٹیٹ اور گالف کورس منصوبہ شامل ہے، جس میں بیچ سائیڈ گالف کورس اور لگژری ولاز تعمیر کی جائیں گی۔ یہ منصوبہ قطر کے خودمختار فنڈ سے منسلک کمپنی کی مدد سے بنایا جا رہا ہے۔

اسلحہ سودوں کے علاوہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، خاص طور پر متحدہ عرب امارات کی طرف سے سوڈان کی خانہ جنگی میں شامل پیرا ملٹری گروپ ’ریپڈ سپورٹ فورسز ‘ (آر ایس ایف) کی مبینہ حمایت پر۔ اقوامِ متحدہ اور امریکی حکام نے اس گروپ پر بڑے پیمانے پر قتلِ عام، زیادتیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے۔ سینیٹر وان ہولن نے کہا، ’’امریکہ کو متحدہ عرب امارات کو اسلحہ نہیں دینا چاہیے جبکہ وہ سوڈان میں انسانی بحران اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی حمایت کر رہا ہے۔ ہمیں ٹرمپ خاندان کے اس ’کرپٹو-اسلحہ معاہدے‘ کو روکنا ہوگا اور اپنی طاقت کا استعمال کر کے سوڈان کے بحران کو پرامن حل کی طرف لانا ہوگا۔‘‘

یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ معاہدے کے دوران ٹرمپ انتظامیہ نے کانگریس کے لیے موجود "غیر رسمی جائزہ مدت" کو نظرانداز کیا ہے، جو قانون سازوں کو معاہدے پر تحفظات ظاہر کرنے یا اس میں ترامیم کی اجازت دیتا ہے۔ ایوان نمائندگان میں بھی اسی نوعیت کی قراردادیں پیش کی گئی ہیں۔ نمائندگان گریگوری میکس اور سارا جیکبز نے متحدہ عرب امارات کے اسلحہ معاہدے کے خلاف قراردادِ عدم منظوری جمع کرائی ہے۔ اسلحہ ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے تحت یہ قراردادیں کانگریس کو ان معاملات پر بحث کرنے اور ووٹنگ کے لیے مجبور کر سکتی ہیں، خاص طور پر جب حزبِ اختلاف اقلیت میں ہو۔

سینیٹر مرفی نے زور دیا کہ ’’اگر کوئی غیر ملکی حکومت امریکی صدر اور اس کے خاندان کو براہِ راست مالی فائدہ پہنچا رہی ہے، تو ہم سینیٹ میں اس بدعنوانی پر مکمل بحث اور ووٹ کرائیں گے، تاکہ امریکہ کے سیکورٹی تعلقات کو شفاف بنیادوں پر استوار کیا جا سکے۔‘‘

یہ اقدام نہ صرف ان اسلحہ سودوں کے مستقبل کا تعین کرے گا بلکہ اس بات کوبھی زیرِ بحث لائے گا کہ امریکی خارجہ پالیسی میں ذاتی مفادات کے لیے کتنی گنجائش ہے، اور آیا عوامی خدمت اور نجی منافع کے درمیان دیوار قائم رہنی چاہیے یا نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔