دوحہ پر اسرائیلی حملہ: مسلم دنیا، مزاحمت اور اتحاد
دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد مسلم دنیا ایک اہم سیاسی موڑ پر ہے۔ عرب ممالک کو مزاحمت کے ساتھ تعلقات مضبوط کر کے اسرائیل کے خطرے سے نمٹنے اور خطے کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے
قطر کی راجدھانی دوحہ پر اسرائیلی جارحیت کے بعد پورا خطہ ایک اہم سیاسی دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایسے حالات میں مزاحمتی گروہوں کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا باب کھولا جائے، اختلافات حل کرنے اور مشترکہ مفادات کو یقینی بنانے کے لیے بات چیت شروع کی جائے، پرانی دشمنیاں چھوڑ کر اس بات پر یقین کیا جائے کہ مقاومت دشمن نہیں بلکہ حقیقی دشمن اسرائیل ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ مزاحمتی ہتھیاروں کا نشانہ لبنان، سعودی عرب یا کسی اور جگہ یا گروہ نہیں بلکہ صرف اسرائیل ہے۔ مزاحمت پر دباؤ ڈالنا مکمل طور پر اسرائیل کے فائدے میں ہے۔ اگر مزاحمت نہ رہی تو اگلا نشانہ عرب ممالک ہوں گے۔ سرد جنگ، پابندیاں اور تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے وہ فوری نتائج نہیں دے سکے جو تل ابیب اور امریکہ چاہتے تھے۔
دو ارب سے زائد آبادی کی حمایت حاصل ہونے کے باوجود مسلم ممالک کو امریکہ (تقریباً 34 کروڑ) اور اسرائیل (تقریباً 10 کروڑ) آبادی والی ریاستوں کی جی حضوری سے باہر نکلنے اور اپنی جگہ بنانے کا وقت آگیا ہے کیونکہ ناجائز صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم پوری عرب دنیا کے لیے خطرناک اشارے دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عرب ممالک کے ہاتھ میں ایسے اختیارات ہیں جن سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور وہ انہیں اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لیکن ٹھوس کارروائی پر ان کے درمیان اتحاد کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان ممالک کے مفادات مختلف ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے لیے بڑھتے ہوئے اسرائیلی خطرے سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی پر اتفاق کرنا مشکل ہے۔
اسلامی بلاک حالیہ تاریخ کی بدترین نسل کشی پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ بعض عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات کو بھی برقرار رکھا ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ احتجاج کی کچھ آوازیں اٹھیں لیکن یہ زیادہ نہیں۔ پھر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا، شام کے اندر مزید علاقوں پر قبضہ کیا جبکہ یمن اور ایران پر بھی بمباری کی۔ جون کے مہینے میں ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ فوجی کارروائی، ایک خود مختار ریاست کے خلاف سب سے شرمناک اقدام تھا۔ اس کے باوجود معمولی مذمتی بیانات کے علاوہ مسلم دنیا نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
صہیونی ریاست نے اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ مغربی کنارے تک بڑھا دیا ہے اور فلسطینی اراضی پر زبردستی قبضہ کر کے آبادکاری کو وسعت دینے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اب اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ پر مستقل طور پر قبضہ کرنے اور اس کی پوری آبادی کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی اور عرب ممالک پر حملے کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ امریکہ کا ’آشیرواد‘ حاصل کئے بغیر اسرائیل پانی میں ڈھیلا بھی مارنے کی ہمت نہیں کر سکتا ہے۔
اسرائیل کو امریکہ سے اربوں ڈالرز کی فوجی امداد ملتی ہے اور اسے خطے میں اپنی فوجی کارروائیوں میں واشنگٹن کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہی نہیں عرب ممالک اپنے فوائد کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو روکنے کے لیے واشنگٹن پر کسی بھی قسم کا دباو ڈالنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ انہیں عرب ممالک نے موسم گرما میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہِ مشرق وسطیٰ میں امریکی صدر کو خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ خلیجی ممالک کے شیخوں نے امریکہ میں کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ قطر نے ٹرمپ کو 40 کروڑ ڈالرز کا طیارہ تحفے میں دیا، اس کے علاوہ اسلحے کی خریداری کے لیے امریکہ کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے لیکن ان سے بھی امریکہ کے قریبی اتحادی کو تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں ملی۔
خلیجی ممالک کے پاس پیداواری صلاحیت بڑھانے، حکومتی آمدنی بڑھانے، اخراجات کو کنٹرول کرنے یا حکومت کی ملکیت والی کمپنیز کو ٹھیک کرنے یا ایک مستحکم مالیاتی نظام بنانے جیسے اہم طویل المدتی اقتصادی منصوبوں کے لیے درکار مہارتیں نہیں ہیں۔ وہ مارکیٹ یا نجی کاروبار پر بھروسہ نہیں کرتے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ سرکاری کمپنیز کا انتظام بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی قیمتوں کو کامیابی کے ساتھ کنٹرول کر سکتے ہیں لیکن اگر انہیں جغرافیائی سیاست کی بساط پر بٹھا دیا جائے تو وہ اچانک اس کھیل میں ماہر ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ کھیل ہے جس میں انہوں نے دہائیوں کی محنت سے مہارت حاصل کی ہے۔ اور اس کھیل کو سمجھنے کے لیے ایک اہم خیال جاننا ہوگا۔ یہ خیال ہتھیاروں اور پیسے کے درمیان تعلق کے بارے میں ہے۔
جن کے پاس زیادہ دولت ہوتی ہے انہیں ہمیشہ تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے اور جو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں انہیں اپنی صلاحیتوں کو تیار رکھنے کے لیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی ملک بیک وقت پیسہ کمانے کا طریقہ اور جدید دور میں اپنی حفاظت کے بہترین ذرائع بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ دنیا کی طاقتور قوت بن سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر ممالک کے پاس دولت اور دفاعی صلاحیتوں میں ایک چیز ہوتی ہے۔ وہ خاموش رہنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں تحفظ پر زیادہ خرچ نہ کرنا پڑیں۔ خلیجی سلطنتوں کے پاس دولت کے بے پناہ ذخیرے ہیں اور وہ کسی بیرونی قوت سے تحفظ پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں جن کی مدد سے وہ دفاعی ادارے خود چلا سکیں۔
موجودہ حالات میں خلیجی بادشاہ اپنی کمزوری اور اس حقیقت سے باخوبی آگاہ ہو چکے ہیں کہ ان کی حفاظت کے لیے امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب وہ یہ دیکھنے کے لیے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں کہ اور کون ان کی حفاظت کر سکتا ہے مگر کچھ دیر بعد ہی ان کی امیدیں کافور ہوجاتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاستیں اپنی حفاظت کے معاملے میں الجھن کی شکار ہیں۔ حالانکہ خلیجی ریاستیں چاہیں تو 2015 میں’مسلم نیٹو‘ کے طور پر تشکیل دیئے گئے ’اسلامک ملٹری کاونٹر ٹیرر ازم کولیشن‘ کو مسلم دنیا کے اجتماعی دفاع کے لیے دوبارہ تیار کیا جا سکتا ہے۔
43 رکنی اسلامک ملٹری کاونٹر ٹیررازم کولیشن فی الحال بہت زیادہ متحرک نہیں ہے۔ اگر اس میں ایران اور دیگر مسلم ریاستوں کو شامل کرنے کے لیے توسیع کی گئی، جو اس وقت اس کے رکن نہیں ہیں تو یہ اسرائیل کو ایک مضبوط پیغام دے سکتا ہے جو کہ فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ مسلم اور عرب دنیا کے لیے موجودہ سیکیورٹی کا سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔ اتحاد کے اہداف کا از سر نو تعین غزہ میں نسل کشی کو ختم کرنے اور صہیونی ریاست کے علاقائی ممالک پر مزید حملوں کو روکنے میں مدد دے سکتا ہے۔ مسلم نیٹو کا بنیادی ڈھانچہ پہلے سے ہی موجود ہے لیکن باقی تمام مسلم ریاستوں کے لیے اپنے دروازے کھولنا اور باہمی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا باقی ہے۔ دشمن ریاستوں کو اس طرح کا اتحاد مستقبل میں مزید حملے کرنے سے پہلے سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سعودی عرب سمیت خلیجی عرب ریاستیں بہ ظاہر یہ سمجھ چکی ہیں کہ امریکہ کے ساتھ گہرے تعلقات کے باوجود امریکہ کا ان کے دفاع میں آنے کا امکان نہیں ہے۔ اس لیے اب ان کے لیے اس طرح کے دیگر متبادل تلاش کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ اور اس کے لیے کوئی بہت زیادہ محنت درکار نہیں ہوگی کیونکہ ’مسلم نیٹو‘ کا ڈھانچہ پہلے سے تیار ہے صرف اس کی نوک پلک درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ممکنہ مسلم اتحاد شاید دنیا کا سب سے مضبوط اور قابل اعتماد حفاظتی گروپ بن جائے گا۔ اس لئے کہ غزہ، ایران اور اب قطرکی راجدھانی دوحہ پر امریکی حمایت سے کئے گئے صہیونی حملے نے امریکہ اور اسرائیل کے دفاعی نظام کی قلعی کھول دی ہے۔
پچھلے دنوں دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیل کا حملہ، قطر کی اس حکمت عملی کی بنیاد پر ضرب تھی جس نے جنگی فریقین کے درمیان بات چیت کے لیے محفوظ اور غیر جانبدار مقام فراہم کیا۔ اسی لئے اسرائیل کی جانب سے حماس کے رہنماوں کی موجودگی کو جواز بنا کر دوحہ پرکئے گئے حملے اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ کے بھی گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔ حالانکہ اپنے کام میں بہترین اور افسانوی سمجھی جانے والی اسرائیلی انٹیلی جنس اس بار بھی حماس کے کسی رہنما کو تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ یہ ناکامی اسرائیل کی سیکیورٹی سروسز میں موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ جو بھی ہو، یہ ایک بڑا دھچکا اور شرمناک ناکامی تھی لیکن ہاں،اسرائیلی میزائلوں نے امن کی کوششوں کو ضرور تباہ کیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔