افغانستان: پوست کی کاشت میں کمی، انسانی حقوق کی پامالی جاری

اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد ملک میں افیم کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم انسانی حقوق کی صورتحال سنگین ہے جبکہ میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی پابندیوں کا شکار ہے

<div class="paragraphs"><p>افغانستان میں مشیات کی کھیتی / Getty Images</p></div>
i
user

مدیحہ فصیح

افغانستان میں پوست کی کاشت میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی مصنوعی منشیات کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملک میں افیم کی پیداوار میں کمی کا رجحان برقرار ہے تاہم کاشت کاروں کو متبادل زرعی مواقع مہیا نہ کیے گئے تو یہ کامیابی خطرے میں پڑ جائے گی۔ طالبان کی جانب سے منشیات پر سخت پابندیوں کے باعث گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی افغانستان میں افیم کی پیداوار 2022 کے مقابلے میں 93 فیصد کم رہی۔ تاہم اس کمی کے نتیجے میں لیبارٹری میں تیار کردہ مصنوعی منشیات کی پیداوار اور استعمال میں اضافے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے مطابق، امسال افغانستان میں 433 ٹن افیم پیدا ہوئی جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود یہ دو سال پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایجنسی کی جانب سے 6 نومبر کو جاری کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال 12,800 ہیکٹر زمین پر افیم پیدا کی گئی۔ اس کی قیمت تقریباً 26کروڑ ڈالر تھی جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 130 فیصد زیادہ مگر 2022 میں پابندی سے پہلے کے عرصہ سے 80 فیصد کم ہے۔

’یو این او ڈی سی‘ نے افغانستان میں منشیات کے استعمال سے پیدا ہونے والے طبی مسائل پر قابو پانے کی صلاحیتوں اور وسائل پر اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے اشتراک سے بھی ایک جائزہ رپورٹ جاری کی ہے۔ جس کے مطابق ملک میں منشیات کے عادی بیشتر افراد افیم اور ہیروئن استعمال کرتے ہیں تاہم میتھم فیٹامائن جیسی مصنوعی منشیات کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مصنوعی منشیات کے استعمال میں اضافہ باعث تشویش ہے کیونکہ اس کے عادی افراد کا علاج مزید مشکل ہوتا ہے۔ لہٰذا منشیات کی لت کے علاج تک رسائی، اس مقصد کے لیے درکار وسائل اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے 34 میں سے 32 صوبوں میں اس علاج کی سہولت موجود ہے لیکن مختلف علاقوں اور طبقات کے مابین ان کی فراہمی میں نمایاں فرق ہے بالخصوص خواتین کی علاج معالجے تک رسائی بہت محدود ہے۔ منشیات کے عادی افراد کے 82 مراکز میں سے صرف 17 ہی خواتین کے لیے مخصوص ہیں ۔ علاوہ ازیں ان مراکز میں تربیت یافتہ عملے، ادویات اور ضروری ساز و سامان کی بھی کمی ہے۔


’یو این او ڈی سی‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر غادہ ولی کے مطابق افغانستان میں مسلسل دوسرے سال افیم کی کاشت اور پیداوار میں کمی مواقع کے ساتھ پیچیدہ مسائل کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ عالمی برادری کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ افیم کی پیداوار میں کمی مصنوعی منشیات کی پیداوار میں اضافے کا سبب نہ بنے ۔ اس کے علاوہ پوست کی کاشت پر انحصار کرنے والی دیہی آبادی کو قانونی اور معاشی اعتبار سے فائدہ مند متبادل بھی دینا ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے بنیادی ڈھانچے، زرعی وسائل اور مستحکم روزگار پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس سال افغان کسانوں نے ان زمینوں پر بڑی مقدار میں اناج اور کپاس کاشت کی ہے جہاں کبھی پوست اگائی جاتی تھی۔ تاہم، افیم کی کاشت سے کسانوں کو گندم کے مقابلے میں 60 فیصد زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ اگر کسانوں کو منافع بخش متبادل نہیں ملیں گے تو بعض کسان معاشی مشکلات کی وجہ سے دوبارہ پوست کاشت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاون مشن(یونیما) نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں افغانستان میں طالبان کے قابض ہونے کے بعد میڈیا کی آزادی کی سنگین صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک کے مطابق طالبان حکام کی جانب سے نافذ کردہ اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے ان معاہدوں کے خلاف ہیں جن کا افغانستان فریق ہے۔ اس رپورٹ میں 15 اگست 2021 سے 30 ستمبر 2024 تک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں اور میڈیا کی آزادی کو لاحق خطرات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ میڈیا اداروں اور صحافیوں کو سنسرشپ کا سامنا ہے جبکہ خواتین صحافیوں کو امتیازی قوانین کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس عرصے کے دوران256 صحافیوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار یا حراست میں رکھا گیا، 130 صحافیوں کو تشدد اور غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور 75 صحافیوں کو دھمکیوں یا ہراساں کئے جانے کے واقعات رپورٹ ہوئے۔


یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اگست 2021 میں قابض ہونے کے بعد سے طالبان نے افغان میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کی ہیں ۔’11 نکاتی رہنما اصول‘ کے تحت ایسی نشریات پر پابندی ہے جو طالبان حکومت کی اسلامی اور ثقافتی تشریحات یا قومی مفادات کے خلاف ہوں۔ اس کے علاوہ خواتین کی تصاویر یا موسیقی کی نشریات پر بھی پابندی عائد ہے اور مردوں اور عورتوں کے ایک ساتھ کام کرنے یا پروگرام میں نظر آنا بھی ممنوع ہے۔ مقامی میڈیا کے ساتھ بین الاقوامی میڈیا کو بھی حکومت کی جانب سے کڑی نگرانی کا سامنا ہے اور خواتین صحافیوں کو پریس کانفرنس میں شرکت کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات یا ملک کی خراب معاشی صورتحال کے باعث کئی میڈیا ادارے بند ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے آزادی اظہار کے حق کو یقینی بنائیں۔

افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بابت ایک اور پیش رفت میں چھ ممالک نے عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) سے درخواست کی ہے کہ وہ افغانستان میں انسانی حقوق کی خراب صورتحال، بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کو درپیش سنگین حالات کی تحقیقات کرے۔ یہ درخواست چلی، کوسٹا ریکا، اسپین، فرانس، لکسمبرگ اور میکسیکو کی جانب سے دی گئی ہے۔ افغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان ممالک نے میثاق روم کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس کے تحت کوئی بھی ریاستی فریق آئی سی سی پراسیکیوٹر کو کسی بھی ایسی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کہہ سکتا ہے ۔ ایسی درخواست پر پراسیکیوٹر کا دفتر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آیا متعلقہ معاملے میں فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ آئی سی سی پراسیکیوٹر کریم خان نے بتایا ہے کہ ان کا دفتر افغانستان کی صورتحال کا پہلے ہی جائزہ لے رہا ہے اور ایسے مبینہ جرائم کے بارے میں تحقیق بھی کی جا رہی ہے جن کا اس درخواست میں تذکرہ ہے اور اس ضمن میں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ منظم طور سے امتیازی سلوک روا رکھے جانے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے میثاق روم کے ریاستی فریقین سمیت تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں کیے گئے جرائم پر احتساب یقینی بنانے میں تعاون کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔