افغان خواتین کے لیے ’دوڑنے کی آزادی‘

کابل میں صبح سویرے، درجنوں خواتین اور لڑکیاں افغان دارالحکومت کے ایک سرے پر واقع پہاڑی کے پتھریلے راستے پر بلندی کی جانب گامزن ہیں۔ ان خواتین کے لیے ہر ایک قدم گویا آزادی کی جانب ایک قدم ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

صرف خواتین پر مشتمل ’فری ٹُو رَن‘ نامی یہ گروپ ہفتے میں کئی بار مختلف پارکوں اور شہر کے راستوں پر تنقیدی نگاہوں، جملے بازیوں اور یہاں تک کی جسمانی تشدد تک کو نظر انداز کرتا ہوا کھلے مقام پر ورزش کرنے کی خوشی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔

’’جب میں دوڑتی ہوں، تو خود کو آزاد محسوس کرتی ہوں‘‘، یہ کہنا ہے 26 سالہ زاہرا کا جس کے خاندانی نام کو دیگر خواتین کے ناموں کی طرح خبر رساں ادارے نے ان کی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ظاہر نہیں کیا۔ زاہرا کے مطابق، ’’مجھے دوڑنا اچھا لگتا ہے کیونکہ یہ مجھے ہمت دلاتا ہے، اس سے میرے زندہ رہنے کو معنی ملتے ہیں۔‘‘

مگر یہ آسان نہیں۔

عوامی مقامات پر دوڑنا ایک ایسی چیز ہے جو انتہائی قدامت پسند افغان معاشرے کے زیادہ تر افراد کی نظر میں خواتین کے لیے شرمناک ہے۔ مسلم اکثریت رکھنے والے افغان معاشرے میں خواتین کے ساتھ ایک طرح سے دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پر سلوک کیا جاتا ہے۔

زاہرا کے مطابق یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کہ لوگ گھورتے ہیں یا پھر تذلیل کے لیے جملے بازی کرتے ہیں۔ زاہرا نے دوڑنے کی تربیت ایک برس قبل شروع کی تھی اور وہ اب تک دو میراتھن اور ایک ہالف میراتھن مکمل کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مجھے صرف ان پر ہنسی آتی ہے‘‘۔

میراتھن عام طور پر محفوظ شہروں مثلاﹰ بامیان یا مزارِ شریف وغیرہ میں منعقد ہوتی ہیں۔

فری ٹو رن نامی گروپ میں شریک ایک اور نوجوان خاتون 17 سالہ مرمر کے مطابق، ’’جب میں دوڑ رہی ہوتی ہوں تو مجھے اچھا لگتا ہے۔ مرمر اب تک گزشتہ دو برس کے دوران تین مقابلے جیت چکی ہیں اور دو بار وہ دوسرے نمبر پر رہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے خاندان کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں ایک پیشہ ور رنر بنوں۔ مجھے خود پر فخر ہے اور میرے خاندان کو بھی۔‘‘

فری ٹو رن کا آغاز 2014ء میں ہوا تھا۔ یہ کینیڈا سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی ایک وکیل اور ’الٹرا رنر‘ کا خیال تھا۔ یہ غیر سرکاری تنظیم تنازعات کے شکار ممالک میں کھیل، رننگ، ہائیکنگ، اسکیئنگ اور سائیکلینگ وغیرہ کے ذریعے خواتین اور لڑکیوں کو خودمختار بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اب تک افغانستان میں اس تنظیم کے 380 ارکان بن چکے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 08 Dec 2018, 7:09 PM