افغانستان: خواتین پر پابندیوں سے امدادی عمل متاثر

طالبان کی خواتین پر پابندیوں کی وجہ سے زندگی بچانے والی خدمات میں کمی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے امدادی مراکز عارضی طور پر بند ہیں، جبکہ بچوں کو فوری امداد فراہم کی جا رہی ہے

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر / Getty Images</p></div>
i
user

مدیحہ فصیح

اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان میں تباہ کن زلزلوں کے بعد انسانی امداد کا عمل جاری ہے، حالانکہ عالمی ادارے کے ساتھ کام کرنے والی خواتین پر طالبان کی جانب سے مزید پابندیوں کے باعث زندگی بچانے کی ضروری خدمات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) کے مطابق، گزشتہ ہفتے افغان سیکورٹی فورسز نے خواتین عملے اور ٹھیکیداروں کو کابل میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس پابندی کے بعد افغانستان میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے نمائندے عرفات جمال نے کہا کہ " ہم سب اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین پر پابندی سے دوچار ہیں… ہم خواتین کے بغیر کام کرنے سے قاصر ہیں"۔ طالبان حکام کے ان اقدامات نے لاکھوں لوگوں کی زندگی بچانے والی امداد کو متاثر کیا ہے۔

امدادی مراکز عارضی طور پر بند

طالبان کی جانب سے عائد پابندیوں کی روشنی میں، سرحد پر اور ان علاقوں میں جہاں سال کے آغاز سے بہت بڑی تعداد میں لوگ ایران، پاکستان اور دیگر جگہوں سے واپس آ رہے ہیں ، یو این ایچ سی آر نے 9 ستمبر کو ضرورت مند افغانوں کے لیے اپنی نقد امداد اور امدادی مراکز کو عارضی طور پر بند کر دیا۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق، سال کے آغاز سے تقریباً 26 لاکھ افغان باشندے ہمسایہ ممالک سے واپس آ چکے ہیں اور ان کی وطن واپسی کی رفتار مسلسل بڑھ رہی ہے، صرف ستمبر کے پہلے ہفتے میں تقریباً ایک لاکھ لوگ پاکستان سے واپس آئے ہیں۔ عرفات جمال نے کہا کہ رجسٹریشن کے عمل میں اسکریننگ اور انٹرویوز کے ساتھ بائیو میٹرک ڈیٹا فراہم کرنا شامل ہے – یہ کام افغان خواتین ورکرز کے بغیر ناممکن ہو گا ۔ امدادی مراکز کو عارضی طور پر بند کرنے کا فیصلہ " ایک آپریشنل فیصلہ تھا، یہ کسی کو سزا دینے کا فیصلہ نہیں ہے، بلکہ یہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم مخصوص حالات میں خواتین کارکنوں کے بغیر کام نہیں کر سکتے۔"مزید برآں، اضافی امدادی وسائل کے بغیر ادارے کے لیے بحرانوں سے نبردآزما افغانوں کو ضروری مدد فراہم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔


پاکستان سے ہمدردی کی اپیل

عرفات جمال نے کہا کہ افغانستان میں ایک بحران کے اندر دوسرا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان سے واپس آنے والے افغانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن میں بیشتر انہی علاقوں میں واپس آ رہے ہیں جنہیں زلزلے کے نتیجے میں تباہی کا سامنا ہے۔ افغانستان کو پہلے ہی شدید غربت اور خشک سالی کا سامنا ہے، جہاں امدادی ضروریات بہت زیادہ ہیں۔ واپس آنے والے بعض لوگ کئی دہائیوں کے بعد اپنے ملک میں آ رہے ہیں جبکہ دیگر کی پیدائش بیرون ملک ہوئی اور انہوں نے پہلی مرتبہ افغانستان میں قدم رکھے ہیں۔

'یو این ایچ سی آر' کے مطابق، پاکستان کی جانب سے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو واپس بھیجنے کا منصوبہ دوبارہ شروع ہونے کے بعد اپریل سے اب تک پانچ لاکھ 54 ہزار افغانوں نے واپسی اختیار کی ہے اور صرف اگست میں ہی ایک لاکھ 43 ہزار لوگ واپس آئے تھے۔عرفات جمال نے پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں سے متعلق انسانی ہمدردی پر مبنی اپنی دیرینہ پالیسی کو برقرار رکھے۔

لڑکیاں خاص طور پر متاثر

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے نمائندے ڈاکٹر تاج الدین اوئیوالے نے متاثرہ علاقوں کے اپنے دورے اور بچوں سے ملاقاتوں کا احوال بتاتے ہوئے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس کو بتایا کہ اس دوران ان کی ملاقات پانچ سالہ بچی سے ہوئی جو اپنی دو سالہ بہن کو اٹھائے جا رہی تھی جس کا زخمی سر ٹانکوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ دونوں بچیاں ہسپتال میں زیرعلاج اپنی زخمی والدہ کی زندگی کے لیے دعا مانگ رہی تھیں۔ڈاکٹر تاج الدین کے مطابق، زلزلے سے متاثرہ دور دراز پہاڑی علاقوں میں بچوں کو زخموں کے علاج کی سہولت دستیاب نہ ہونے، غیرمحفوظ پانی، صحت وصفائی کی ناقص سہولیات، غذائی قلت، تعلیم سے محرومی اور شدید ذہنی دباؤ سمیت کئی طرح کے خطرات لاحق ہیں۔

ڈاکٹر تاج الدین نے کہا کہ ایسے حالات میں لڑکیاں خاص طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ جب گھر تباہ ہو جاتے ہیں، تو سب سے پہلے لڑکیوں سے تعلیم چھن جاتی ہے اور ایسے ملک میں یہ خدشات اور بھی زیادہ ہیں جہاں ان کی تعلیم کے حق پر پہلے ہی کڑی رکاوٹیں عائد ہیں۔ جب خاندان روزگار سے محروم ہو جاتے تو لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا خطرہ بھی مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگر افغانستان میں بہتری کے لیے فوری قدم نہ اٹھایا گیا تو یہ بحران موجودہ عدم مساوات کو مزید گہرا کر دے گا اور لڑکیوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالے گا۔


ہنگامی خدمات کی فراہمی

موجودہ صورتحال میں یونیسیف زلزلہ متاثرین بالخصوص بچوں کو شفاخانوں اور طبی ٹیموں کے ذریعے صحت کی ہنگامی خدمات فراہم کر رہا ہے جبکہ ذہنی صدمات کا علاج، زچہ بچہ کی دیکھ بھال اور ضروری ادویات کی فراہمی بھی جاری ہے۔ ڈاکٹر تاج الدین نے عطیہ دہندگان اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس نازک وقت میں افغانستان کے بچوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔

افغانستان اب بھی 6.0 شدت کے زلزلے سے نمٹ رہا ہے جس نے 31 اگست کو کنڑ اور ننگرہار صوبوں کو متاثر کیا تھا، اور جس کے بعد متعدد شدید آفٹر شاکس آئے۔ یونیسیف کے مطابق، کم از کم 1172 بچے ہلاک ہو چکے ہیں، جو کہ مرنے والوں کی مجموعی تعداد کا نصف سے زیادہ ہے۔اور اس آفت سے متاثرہ 2 لاکھ 63 ہزار بچوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ مجموعی طور پر، بحران نے 2164 سے زیادہ جانیں لی ہیں، کم از کم 3428 افراد زخمی ہوئے ہیں اور کم از کم 6700 مکانات یا تو تباہ ہوئے ہیں یا بری طرح سے نقصان پہنچا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔