افغانستان: قدرتی آفات سے دو چار ملک

زلزلے سے تقریباً 4000 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں، 20 دیہات میں 2000 مکانات تباہ ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ زندہ جان ضلع کے 11 دیہات میں 1023 افراد ہلاک اور 1663 افراد زخمی ہوئے ہیں

<div class="paragraphs"><p>Getty Images</p></div>

Getty Images

user

مدیحہ فصیح

افغانستان کے مغربی صوبہ ہرات کےزندہ جان ضلع میں 7 اکتوبر 2023 کوآئے 6.3 شدت کے زلزلے نے بے شمار مکانات کو مسمار اور تقریباً تین ہزار افراد کو ہلاک کر دیا۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز صوبائی دارالحکومت ہرات شہر سے تقریباً 40 کلومیٹر شمال مغرب میں تھا۔ کئی آفٹر شاکس کافی شدید تھے، جن میں ایک اتنا شدید تھا کہ شہر کے مکین اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔حالیہ سالوں میں افغانستان قدرتی آفات سے دوچار ہے۔ مارچ میں 6.5 کی شدت کے زلزلے نے پاکستان اور افغانستان کے بیشتر حصے کو متاثر کیاتھا، اور جون 2022 میں مشرقی افغانستان میں زلزلہ آیا، جس سے پتھر اور مٹی سے بنے گھر تباہ ہوگئے اور کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

افغانستان پہلے ہی ایک انسانی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد دنیا کے زیادہ تر ممالک ان کے ساتھ براہ راست تعلق قائم کرنے میں محتاط ہیں اورغیر ملکی امداد کے بڑے پیمانے پر انخلا سے افغانستان میں صحت کے نظام پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ خواتین پر اقوام متحدہ اور این جی اوز کے لیے کام کرنے پر پابندی کے بعد طالبان کے بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے ساتھ بھی تلخ تعلقات ہیں۔ نتیجتاً اس تباہ کن زلزلے پر عالمی ردعمل سست رہا ہے۔ دوسرے، 7 اکتوبر کے روز ہی غزہ سےحماس کے اچانک حملے کے نتیجے میں عالمی توجہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ پر مرکوز ہو گئی۔ لیکن اقوام متحدہ کے حکام نے نقصان کا جائزہ لینے کے لیے زندہ جان ضلع کا دورہ کیا ۔ پڑوسی ملک پاکستان کی حکومت نے امداد کا جائزہ لینے کے لیے ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جبکہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے طالبان ہم منصب امیر خان متقی کو فون کرکے تعزیت کا اظہار کیا اورمتاثرین کے لیے انسانی امداد کا وعدہ کیا۔


افغانستان میں طالبان کی اعلیٰ قیادت نے زلزلے کے بارے میں کوئی عوامی تبصرہ نہیں کیا ہے۔البتہ طالبان کے نائب وزیر اعظم عبدالغنی برادر نے ایک ٹیم کےہمراہ فوری امداد کی فراہمی اور اس کی تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے 9 اکتوبر کو متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔ طالبان نے کہا کہ زلزلے کے بعد پہلی بار 9 اکتوبر کو کچھ دیہات تک رسائی حاصل کی گئی ۔ریسکیو آپریشن ابھی بھی جاری ہے۔ وزارت دفاع کے دستے اور مقامی باشندے اس آپریشن میں سرگرمی سے مدد کر رہے ہیں۔ کم از کم 20 دیہات مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں اور لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

افغانستان کے پاس چند قابل اعتماد اعدادوشمار ہیں۔ کابل میں افغانستان کی نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے ترجمان جانان صائق نے بتایا کہ اس آفت سے تقریباً چار ہزار افراد ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ صرف زندہ جان کے 11 دیہات میں 1023 افراد ہلاک اور 1663 افراد زخمی ہوئےہیں۔ طالبان نے کہا ہے کہ 20 دیہات میں تقریباً 2000 مکانات تباہ ہو گئے ہیں۔ زلزلے سے متاثرہ علاقے میں صرف ایک سرکاری ہسپتال ہے۔ صائق نے کہا کہ فوجی اور غیر منافع بخش گروپوں کی 35 سے زیادہ ٹیمیں بچاؤ کی کوششوں میں شامل ہیں۔


طالبان حکام نے متاثرہ علاقے میں مزید جانی نقصان کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ حکام کے مطابق، ہلاکتوں کی تعداد 3000 کے قریب پہنچ رہی ہے۔ امدادی کارکنوں نے بتایا کہ 8 اکتوبر کو مزید 350 لاشیں ملی ہیں جبکہ حکام نے پہلے مرنے والوں کی تعداد 2445 بتائی تھی۔ ہرات کے اسپتال کے ایک طبیب نے بتایا کہ ہر منٹ لاشوں سے بھری گاڑیاں یہاں پہنچ رہی ہیں اور ہمارے مردہ خانہ میں گنجائش نہیں ہے۔ دوسری جانب ان طاقتور زلزلوں سے بچ جانے والے رات تباہ حال دیہات میں گزاررہے ہیں اوراپنے پیاروں کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ علاقائی دارالحکومت ہرات شہر میں لوگ مزید جھٹکوں کے خوف سے عوامی پارکوں اور گلیوں میں سو رہے ہیں۔ امریکی جیولوجیکل سروے نے 9 اکتوبر کو دیہی علاقوں میں 5.9، 4.9 اور 4.7 کی شدت کے زلزلوں کی اطلاع دی تھی۔

بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی نے کہا کہ پلوں سمیت اہم بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے اور انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے ہنگامی رسپانس ٹیمیں تعینات کر دی گئی ہیں۔ کمیٹی نے خبردار کیا کہ امدادی سامان کی کمی سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ ملبے میں دبے افراد کو نکالا نہیں جا سکتا۔ دریں اثنا، وزارت انصاف نے قومی اور بین الاقوامی خیراتی فاؤنڈیشنز، تاجروں اور افغانوں پر زور دیا ہے کہ وہ صوبے میں ضرورت مند لوگوں کے لیے انسانی امداد کو متحرک اور جمع کریں۔


افغانستان اکثر زلزلوں کی زد میں رہتا ہے، خاص طور پر اس کے ہندوکش پہاڑی علاقے۔ لیکن طالبان ،جنہوں نے دو سال قبل طاقت کے ذریعے ملک پر قبضہ کر لیا تھا ، قدرتی آفات سے نمٹنے کا تجربہ نہیں رکھتے۔ سوشل میڈیا اور سرکاری ٹی وی فوٹیج میں طالبان کی امدادی ٹیموں کے ارکان ملبے کے ڈھیر سے اینٹیں نکال رہے ہیں اور ان کے کندھوں پر بندوقیں لٹکی ہوئی ہیں ۔ وہ تباہ شدہ دیہاتوں میں بلڈوزر کا استعمال کررہے ہیں ، اور اس طرح ممکنہ طور پر کسی بھی زندہ بچ جانے والے کی جان کو خطرہ ہے۔

ایران کے ساتھ سرحد پرواقع صوبہ ہرات، 30 لاکھ سے زیادہ لوگوں کا گھر ہےاور برسوں سے جاری خشک سالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے کئی زرعی برادریاں بیکار ہو گئی ہیں ۔ طالبان اہلکار کے مطابق، متاثرہ علاقے میں بہت سے ایسے مہاجرین بھی ہیں جو حال ہی میں ایران اور پاکستان سے واپس آئے ہیں۔امدادی اداروں اور این جی اوز نے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔ طالبان کے مطابق، ایران اور ترکی سے امداد اب تک علاقے میں پہنچ چکی ہے۔


امدادی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں موسم سرما موجودہ چیلنجوں کو مزید بڑھا دے گا اور لوگوں کے لیے بنیادی ضروریات، جیسے مناسب پناہ گاہ، خوراک اور ادویات کو پورا کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ان خدشات کی تائد کرتے ہوئے ہرات کے گورنر، نور احمد نے کہا کہ متاثرہ علاقوں میں جلد ہی انتہائی سردی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہت سے خاندانوں نے نہ صرف اپنے گھروں کو کھو دیا ہے بلکہ ان کے کمانے والے بھی نہیں ہیں۔ انہیں فوری امداد اور مناسب پناہ گاہوں کی ضرورت ہے ۔ وہ پہلے ہی بہت غریب لوگ تھے اور اب ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔