ایران میں افغان پناہ گزینوں کی زندگی اجیرن

اسرائیل-ایران کشیدگی کے دوران ایران میں مقیم لاکھوں افغان پناہ گزین، خاص طور پر بغیر دستاویزات والے، بمباری، غربت اور قانونی تحفظ کے فقدان کے باعث شدید خطرات سے دوچار ہیں

<div class="paragraphs"><p>ایران سے واپس لوٹتے افغان پناہ گزین / Getty Images</p></div>

ایران سے واپس لوٹتے افغان پناہ گزین / Getty Images

user

مدیحہ فصیح

ایران میں پھنسے افغان پناہ گزینوں کو ایران اسرائیل جنگ میں بھلا دیا گیا ہے – یہ وہ لوگ ہیں جو ایک خطرناک علاقے سے فرار ہوئے، لیکن دوسرے میں پھنس گئے، جہاں کوئی محفوظ پناہ گاہ نظر نہیں آتی۔ ایران میں تقریباً 35 لاکھ پناہ گزین اور ان جیسے حالات میں رہنے والے افراد موجود ہیں، جن میں تقریباً 7.5 لاکھ رجسٹرڈ افغان شامل ہیں۔ لیکن 26 لاکھ سے زیادہ افراد بغیر دستاویزات کے ہیں۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد، ہزاروں افغان – جن میں کارکنان، صحافی، سابق فوجی اور دیگر کمزور لوگ شامل ہیں – ایران میں پناہ کے لیے آئے۔ صرف تہران صوبے میں ہی تقریباً 15 لاکھ افغان پناہ گزین رہتے ہیں – جن میں اکثریت بغیر دستاویزات کے ہیں – اور جب جمعہ 13 جون کو اسرائیل نے تہران اور اس کے گرد و نواح میں شہری اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، تو بہت سے افغانوں کو اپنی شدید غیر محفوظ حالت کا تلخ احساس دوبارہ ہوا۔

جمعہ 13 جون کو جب اسرائیلی میزائل تہران پر برسنے لگے، تب بہت سے لوگ تہران سے ایران کے شمالی علاقوں کی طرف فرار ہو گئے، لیکن شمسی جیسے افغان پناہ گزینوں اور ان کے خاندانوں کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ شمسی کو ایک بار پھر احساس ہوا کہ وہ اور ان کا خاندان کتنے غیر محفوظ ہیں۔ 34 سالہ شمسی، جو دو بچیوں کی ماں ہیں شمالی تہران میں سلائی کا کام کر رہی تھیں۔ خوف اور گھبراہٹ کے عالم میں بھاگ کر گھر پہنچیں تو دیکھا کہ ان کی پانچ اور سات سال کی بیٹیاں خوف سے میز کے نیچے چھپی ہوئی تھیں۔ شمسی نے طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان سے ایک سال قبل تحفظ کی غرض سے ایران کا رخ کیا تھا۔ لیکن اب، وہ بغیر دستاویزات کے، خوف زدہ حالت میں، ایک اور خطرناک صورتحال میں پھنس چکی ہیں – اس بار نہ کوئی پناہ، نہ کوئی قانونی حیثیت، نہ نکلنے کا کوئی راستہ۔

حفاظتی وجوہات کی بنا پر صرف اپنا پہلا نام ظاہر کرنے کی درخواست کیساتھ شمسی نے ’الجزیرہ ‘کو بتایا،"ہم طالبان سے بچ کر نکلے تھے، ہم یہاں حفاظت کے لیے آئے تھے، لیکن یہاں ہمارے سروں پر بم برس رہے تھے ۔" افغانستان میں ایک سرگرم کارکن رہی شمسی اور ان کے شوہر، جو ایک سابق افغان فوجی ہیں، عارضی ویزا پر ایران آئے۔ انہیں طالبان کے انتقام کا خوف تھا۔ لیکن وہ ویزا کی مدت بڑھانے سے قاصر رہے کیونکہ اس کے لیے انہیں ایران چھوڑ کر طالبان کے زیرِ کنٹرول افغانستان واپس جانا لازمی تھا – جو ایک نہایت خطرناک سفر ہوتا۔


ایران میں شمسی کی زندگی آسان نہیں رہی۔ قانونی رہائش نہ ہونے کی وجہ سےان کو کام پر کوئی تحفظ حاصل نہیں، کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں اور کسی امداد تک رسائی نہیں۔ انہیں کسی بین الاقوامی ادارے سے اور نہ ہی ایرانیوں سے کوئی مدد ملی ۔ تہران میں انٹرنیٹ بندش نے معلومات حاصل کرنا اور اہلِ خانہ سے رابطہ قائم رکھنا بھی مشکل بنا دیا ۔ ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے کہیں جا نہیں سکتیں۔ تہران کی ہر سڑک پر پولیس کی سخت نگرانی ہے ۔ بمباری سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح کھانے پینے کی اشیاء خریدنے میں کامیاب ہو جاتی تھیں، لیکن جب اسرائیل نے حملے شروع کیے، تو یہ سب کچھ مزید مشکل ہو گیا۔

22 جون کی رات کو ایک دھماکہ شمسی کے محلے میں ہوا، جس سے ان کے اپارٹمنٹ کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ وہ صبح 3 بجے تک جاگتی رہیں، اور جیسے ہی ایک گھنٹے کے لیے سوئی، ایک اور دھماکہ نے انہیں جگا دیا۔ ان کی عمارت کے قریب ایک پورا رہائشی اپارٹمنٹ زمیں بوس ہو گیا۔ انہوں نے ایک بیگ میں بچوں کی ضروری چیزیں رکھیں، تاکہ اگر ان کے اپارٹمنٹ کو کچھ ہو جائے تو وہ فوراً وہاں سے نکل سکیں۔ 23 جون کو ہونے والی جنگ بندی نے کچھ راحت دی، لیکن اب دیگر مسائل درپیش ہیں: شمسی کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ان کا آجر نقد تنخواہ دیتا تھا، لیکن وہ شہر چھوڑ چکا ہے اور فون نہیں اٹھا رہا۔

ایران میں پھنسے تمام افغان پناہ گزینوں کے لیے اسرائیل کے ساتھ 12 دن کی جنگ نے صدمے اور بے وطنی کے احساس کو شدت سے دوبارہ جگا دیا ہے۔ ایرانی محکمہ صحت کے مطابق، حالیہ حملوں میں مارے گئے 610 افراد میں تین افغان تارکین وطن بھی شامل تھے ۔ 18 جون کو، 18 سالہ افغان مزدور عبدالوَلی تہران کے علاقے تہران‌پارس میں ایک تعمیراتی جگہ پر اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گیا، جبکہ دیگر کئی زخمی ہوئے۔ مقتول کے والد کے مطابق، عبدالوَلی نے تقریباً چھ ماہ قبل افغانستان میں تعلیم چھوڑ کر ایران آ کر کام شروع کیا تاکہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکے۔دیگر افغان اب بھی اسرائیلی حملوں کے بعد سے لاپتہ ہیں۔ افغانستان کے صوبے تخار سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ افغان، حکیمی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ایران میں اس کے تین پوتوں سے چار دن سے کوئی رابطہ نہیں ہو پایا۔ وہ تہران کے وسطی علاقے میں ایک تعمیراتی جگہ میں پھنسے ہوئے تھے۔ اگر وہ بچ بھی گئے ہوں،تو وہ بغیر کاغذات کے ہیں۔ اگر باہر نکلیں گے تو پولیس انہیں ڈیپورٹ کر دے گی۔


تنازع کے دوران، اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینٹ نے تمام فریقوں سے ایران میں افغان مہاجرین کی حفاظت پر زور دیا۔ افغان کارکن لیلیٰ فروغ محمدی، جو اب ملک سے باہر رہتی ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے ایران میں افغانوں کے سنگین حالات کے بارے میں آگاہی پھیلا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، "اکثر کے پاس قانونی دستاویزات نہیں، اور اس سے ان کی پوزیشن مزید خطرناک ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ وہ اپنے بھاگے ہوئے آجر سے بقایا تنخواہ بھی نہیں لے سکتے۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران-اسرائیل تنازع کے دوران افغانوں کے لیے کوئی سرکاری ادارہ موجود نہیں تھا، جو لوگ ایران کے خطرناک علاقوں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے، وہ زیادہ تر افغان تنظیموں کی مدد سے نکلے۔

افغان ویمن ایکٹیوسٹس کوآرڈینیٹنگ باڈی، جو یورپی تنظیم برائے انضمام کا حصہ ہے، نے سینکڑوں خواتین اور ان کے خاندانوں کو نکلنے میں مدد دی۔ انہوں نے انہیں تہران، اصفہان اور قم جیسے بڑے خطرے والے علاقوں سے – جو اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ہدف بننے والی اہم جوہری تنصیبات کے مقامات ہیں – ملک کے شمال مشرق میں واقع محفوظ شہروں جیسے مشہد منتقل کیا۔ اس تنظیم نے ایران میں جاری انٹرنیٹ بندش کے دوران افغانستان میں موجود خاندانوں سے رابطہ قائم کرنے میں بھی مدد فراہم کی۔

ایران نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ 20 لاکھ تک بغیر دستاویزات افغانوں کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے، لیکن 12 دن کی جنگ کے دوران، کچھ افراد نے خطرات اور مشکلات کے باوجود وطن واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔ ورلڈ ویژن افغانستان نے رپورٹ کیا کہ جنگ کے دوران روزانہ تقریباً سات ہزار افغان ایران سے ہرات صوبہ کے اسلام قلعہ بارڈر کے ذریعے افغانستان واپس جا رہے تھے۔

اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے ایران میں افغانوں کی بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کر رہا ہے کہ لوگ ایران کے اندر حرکت میں ہیں اور کچھ ہمسایہ ممالک کی طرف بھی جا رہے ہیں۔ اگرچہ اسرائیلی حملے رک چکے ہیں، لیکن کشیدگی اب بھی بہت زیادہ ہے، اور ایران سے فرار ہونے والے افغانوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کے لیے، اب کوئی جائے پناہ باقی نہیں بچی۔شمسی سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر حالات مزید خراب ہو گئے تو کیا کریں گی، شمسی نے لمحہ بھر بھی نہیں سوچا اور کہا کہ " میں اپنے خاندان کے ساتھ یہی رہوں گی۔ میں طالبان کے پاس واپس نہیں جا سکتی۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔