اقوام متحدہ کے مطابق شمال مغربی شام میں زلزلے سے 4300 ہلاک اور قریب 7600 افراد زخمی

ڈاکٹر نذیر سلیمان نے بتایا کہ ’مریضوں کو علاج کے بعد بھی ہم ڈسچارج نہیں کر پاتے کیونکہ شہر تباہ ہو چکے ہیں اور ان کے پاس جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں۔‘

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

یو این آئی

انقرہ/دمشق: اقوام متحدہ کے مطابق شمال مغربی شام میں زلزلے سے 4300 ہلاک اور قریب 7600 زخمی ہوئے ہیں۔ شام کے ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ حلب کے اسپتالوں میں نئے مریضوں کے لیے کوئی جگہ نہیں، جبکہ وہاں پہلے سے زیرِ علاج افراد کو ڈسچارج کرنا بھی ممکن نہیں۔

حلب کے الرازی اسپتال میں پہلے سے ہی وارڈ میں جگہ سے زیادہ بیڈ لگے ہوئے ہیں۔ اسپتال کی راہداریوں سے سرد صحن تک ہر طرف بستر لگے نظر آتے ہیں، جبکہ طبی سامان کی شدید قلت ہے۔ الرازی اسپتال میں آرتھو پیڈکس شعبے کے سربراہ ڈاکٹر نذیر سلیمان نے بتایا کہ ’مریضوں کو علاج کے بعد بھی ہم ڈسچارج نہیں کر پاتے کیونکہ شہر تباہ ہو چکے ہیں اور ان کے پاس جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں۔‘


ان کا کہنا ہے کہ ’قلیل مدت میں مریضوں کی بڑی تعداد آ چکی ہے۔ ہمارے پاس ادویات کی کمی ہے۔ مثلاً ہمارے پاس فریکچر کے علاج کے لیے طبی سامان نہیں۔ ملک میں جاری بحران اور معاشی پابندیوں کی وجہ سے ہم پہلے ہی اس سے متاثر ہو رہے تھے۔‘ شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس پر جنگ کی وجہ سے عائد مغربی پابندیوں نے امدادی سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے لیکن امریکہ اور دیگر طاقتیں اس کی تردید کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ پابندیوں کا امدادی کارروائیوں پر اطلاق نہیں ہوتا۔

اگرچہ طبی سامان کی درآمد پر کوئی خصوصی پابندی نہیں مگر امریکی قوانین کی وجہ سے مالی ادائیگیاں مشکل ہیں۔ یوں بیرون ملک سے طبی سامان کی خریداری میں رکاوٹ آتی ہے۔ شام کے خبر رساں ادارے سانا کے مطابق وزیر خارجہ فيصل المقداد نے اقوام متحدہ میں شام کے لیے خصوصی سفیر گیئر پیڈرسن سے ’تمام یکطرفہ پابندیاں‘ ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔


روس اور ایران نے شام کی حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں امداد کا وعدہ کیا ہے۔ لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہ حزب اللہ نے بھی امداد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ شام کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ چین، سوڈان، الجزائر، عراق اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھیجی گئی امداد پہلے ہی ملک میں پہنچ چکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔