استعفے کے 10 دن بعد منظر عام پر آئے سابق نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی، کرائے کے گھر میں منتقل!

نیپال میں جین-زی احتجاج کے دباؤ پر 9 ستمبر کو کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دیا۔ 10 دن بعد وہ پہلی بار عوامی طور پر نظر آئے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے کرائے کے گھر منتقل کیے گئے

<div class="paragraphs"><p>نیپالی وزیر اعظم کے پی&nbsp; شرما اولی / سوشل میڈیا</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

کھٹمنڈو: نیپال میں جاری شدید سیاسی بحران اور جین-زی دور کے نوجوانوں کے پُرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ نو ستمبر کو اقتدار چھوڑنے کے بعد وہ دس دن تک عوامی نظروں سے اوجھل رہے۔ جمعرات کو وہ پہلی بار منظر عام پر آئے، جب فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انہیں شیوپوری کے فوجی بیرک سے بھکت پور لایا گیا، جہاں ان کے لیے ایک کرائے کا مکان فراہم کیا گیا ہے۔

اولی کو استعفیٰ کے بعد وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ سے فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہٹایا گیا تھا اور انہیں کچھ دنوں تک شیوپوری کے فوجی کیمپ میں رکھا گیا۔ اس دوران ان کے کھٹمنڈو میں واقع ذاتی مکان، جھاپا کے آبائی گھر اور دمک کی رہائش گاہ کو مشتعل مظاہرین نے آگ کے حوالے کر دیا۔ اسی بنا پر انہیں نئی رہائش کے لیے کرائے کا گھر دیا گیا ہے۔

یہ سیاسی بحران اس وقت شروع ہوا جب آٹھ اور نو ستمبر کو ہزاروں نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ ان نوجوانوں نے حکومت پر کرپشن، اقربا پروری اور سنسرشپ کا الزام لگایا۔ سوشل میڈیا پر پابندی اور بدعنوانی کے خلاف یہ مظاہرے پرتشدد رخ اختیار کر گئے۔ پارلیمنٹ ہاؤس سمیت متعدد سرکاری دفاتر کو آگ لگا دی گئی جبکہ کم از کم 72 افراد کی جانیں گئیں۔


فوج کی سخت سکیورٹی کے باوجود مظاہرین نے اولی کے نجی گھروں کو بھی نشانہ بنایا۔ اس کے بعد سے ان کی رہائش کا معاملہ زیر بحث رہا اور مختلف افواہیں گردش کرتی رہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ اب بھکت پور میں کرائے کے مکان میں ان کی موجودگی کی باضابطہ تصدیق ہو گئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق جب اولی نئے گھر پہنچے تو وہاں موجود کچھ حامیوں نے ان کا خیرمقدم کیا۔ اس موقع پر وہ نسبتاً خاموش اور تھکے ہوئے نظر آئے۔ یاد رہے کہ انہوں نے 9 ستمبر کو صدر رام چندر پاؤڈیل کو باضابطہ طور پر استعفیٰ پیش کیا تھا، جسے 10 ستمبر کو منظور کر لیا گیا۔ اس کے بعد اولی اور ان کی کابینہ کے دیگر ارکان فوجی بیرک میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ اولی کو استعفیٰ کے بعد عوامی طور پر دیکھا گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ بحران محض حکومتی تبدیلی نہیں بلکہ نیپالی سیاست کے لیے ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ نوجوان نسل کی طاقت اور ان کے مطالبات نے مستقبل کی سیاست کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نیپال کی نئی قیادت ان احتجاجات کے پیچھے چھپی بے چینی کو کیسے حل کرے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔