وقف ترمیمی بل نے مودی حکومت کو بچا لیا!
نتیش ہوں یا نائیڈو، دونوں کو مستقبل میں بھی مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی کیونکہ مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر ان کی جماعتوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے

وقف پر قائم جے پی سی کے ارکان اپنی رپورٹ لوک سبھا اسپیکر کو سونپتے ہوئے / آئی اے این ایس
متنازعہ وقف ترمیمی بل کو پاس کر کے آخرکار تمام اندیشے اور اندازے صحیح ثابت کرتے ہوئے حکومت وقت اپنی ضد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس اقدام سے جہاں اکثریتی طبقے کے کچھ لوگ بلیوں اچھل رہے ہیں وہیں حکمرانوں اور انتہا پسندوں کی جارحیت اور غیر آئینی طرزِ عمل نے ملک کے ایک بڑے طبقے کو بدظن کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ حکومت کی ذمہ داری ملک کی ترقی کو رفتار دینا اور امن و امان کو قائم رکھنا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ عوام میں کسی بھی طرح کی نفرت اور افراتفری کو روکنا بھی حکومت کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے لیکن اس معاملے میں حکومت کے طرزِ عمل سے صاف ہے کہ اس نے انتخابی فائدے کے لیے اقلیت اور اکثریت کو تقسیم کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
وقف ایکٹ میں ترمیمات کے حالیہ بل کی منظوری نے مسلمانوں کو تقریباً مایوس اور الگ تھلگ کر دیا ہے، کیونکہ یہ ترمیمات آئینِ ہند میں دیے گئے ان کے آئینی حقوق کو نظر انداز کر کے کی گئی ہیں۔ اس عمل نے مسلم نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کیا ہے، جو اب اپنے ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ کے بارے میں شش و پنج میں آ گئے ہیں۔ اس بل کی منظوری ہندوستان میں مسلمانوں کی باوقار بقا کی جدوجہد میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے وقف بل کی منظوری ایک نوشتۂ دیوار سے کم نہیں ہے۔ انہیں یہ نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ ان کا حاشیہ تنگ کرنے میں کوئی بھی پیچھے نہیں ہے۔ وقف بل نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے چہرے سے نقاب نوچ پھینکی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکمراں جماعت (بی جے پی) کے لیے وقف ترمیمی بل کی کامیابی دراصل مودی حکومت کی بقا کا مسئلہ تھا اور بالآخر وہی ہوا جس کے اندیشے ظاہر کیے جا رہے تھے۔ اگر خود کو سیکولر اور مسلمانوں کی ہمدرد بتانے والی تلگودیشم اور جے ڈی یو وقف بل کی مخالفت کرتیں اور یہ بل پاس نہیں ہو پاتا تو ایوان میں مودی حکومت کی اکثریت پر بھی سوال پیدا ہوتے اور عین ممکن تھا کہ مودی حکومت اقتدار سے محروم ہو جاتی۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جو سیاسی جماعتوں کے ہاتھ آیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ تلگودیشم اور جے ڈی یو نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور مودی حکومت کے ساتھ سودے بازی کرکے مرکزی حکومت کے ساتھ اپنے اقتدار کی عمر کسی حد تک بڑھا لی ہے۔
جے ڈی یو اور تلگودیشم کی تائید کے نتیجے میں ہی مودی حکومت مرکز میں قائم ہے اور ان ہی کی تائید کے نتیجے میں متنازعہ وقف ترمیمی بل کو پیش کیا گیا اور اس کی منظوری کے لیے کوششیں کی گئیں۔ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو خود کو مسلم دوست لیڈر کہلاتے ہیں اور اپنی اپنی ریاست میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے اقتدار کو یقینی بنانے کے لیے مرکز کی مودی حکومت کے ساتھ ہو گئے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے وقف بل کی تائید بھی کر دی۔ نتیش ہوں یا پھر نائیڈو، دونوں کو مستقبل میں بھی مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی کیونکہ مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر ان کی جماعتوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
بل کی تائید کرکے تلگودیشم پارٹی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو اور جے ڈی یو کے مکھیا نتیش کمار نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے مفادات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ علی الاعلان دھوکہ کیا اور لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل کو معمولی ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب کر دیا گیا۔ وقف بل کی تائید میں 288 ووٹ ڈالے گئے جبکہ اس کے خلاف 232 ووٹ پڑے۔ اس معاملے میں کانگریس کی قیادت والے ’انڈیا اتحاد‘ نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مسلمانوں اور اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اپنے موقف پر قائم ہے۔ ان کا ایک بھی ووٹ ضائع نہیں ہوا اور نہ ہی بل کی تائید میں گیا۔ اگر جے ڈی یو اور تلگودیشم کی جانب سے بل کی تائید نہ کی جاتی تو کسی بھی حالت میں متنازعہ بل منظور نہیں کروایا جا سکتا تھا۔
وقف بل کے حوالے سے مسلم ارکانِ پارلیمنٹ نے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے وہ سیکولر ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ نے وقف اداروں کے تحفظ اور وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات کے خلاف پارلیمنٹ میں اپنی انتہائی جرأت مندانہ کوششوں کا مظاہرہ کیا۔ شاید ایسا پہلی بار ہوا ہے جب اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں مسلم ارکان کے ساتھ مسلمانوں کے ہر طبقے نے تاریخی اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے ثقافتی اور مذہبی اہمیت کے حامل اداروں کے تقدس کی حفاظت کے لیے سیکولر ممبرانِ پارلیمنٹ کی کاوشوں اور عزم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس غیر دستوری بل کے خلاف مستقبل کے لیے طویل جدوجہد کے لیے اسی عزم اور استقلال کی ضرورت ہے۔
ذہن نشین رہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں بھی کچھ سانپ موجود ہیں جو آستین میں رہ کر ڈسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے ادنیٰ سے مفادات حاصل کرنے اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے وہ بل کی تائید و حمایت کر کے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات اور لاکھوں ایکڑ وقف اراضی کو تھالی میں سجا کر دشمنوں کو سونپنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ منافقانہ صورتحال سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے بہت پہلے جاگ جانا چاہئے تھا اور اپنے وجود کا احساس دلانا چاہئے تھا۔ کم از کم اب مسلمانوں کو اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کی خاطر خود کمربستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ دستور اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جدوجہد کرنی چاہئے۔
کوئی بھی تحریک آسان نہیں ہوتی ہے مگر یہ سوچ کر خاموش بیٹھ جانا بھی عقلمندی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے قانونی اور آئینی طریقے سے سڑکوں اور چوراہوں پر احتجاج کیا جا سکتا ہے۔ کچھ گوشے ایسے ہیں جو ان فیصلوں کو ایوان میں ہونے والے فیصلے قرار دیتے ہوئے امکانی احتجاجی راستے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایوان میں ہوئے فیصلے کو کسان برادری نے سڑکوں پر احتجاج کرکے اور سینکڑوں جانوں کی قربانی دے کر واپس لینے پر مجبور کیا تھا۔ فیصلے عملی میدان میں ہی ہو سکتے ہیں اور مسلمانوں کو صورتحال کو حقیقی معنوں میں سمجھنے اور اپنے حقوق کا دستور اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تحفظ کرنے کے لیے تیار ہو جانا چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔