ندائے حق: ملک کے نظامِ صحت میں اصلاحات کی ضرورت!... اسد مرزا

کورونا وبا نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ملک کا طبی نظام نجی کاروباریوں کے ہاتھ میں نہیں دیا جاسکتا ہے، نظامِ صحت کو بااثر بنانے کے لیے حکومت کی دیکھ ریکھ بہت ضروری ہے۔

آکسیجن کی کالا بازاری / آئی اے این ایس
آکسیجن کی کالا بازاری / آئی اے این ایس
user

اسد مرزا

گزشتہ ایک سال سے جب سے ملک میں کورونا کی وبا پھیلی ہے اس کے دوران جس طبقے کی کوششوں اور کاوشوں کو ہر فرد نے دل و جان سے سراہا ہے وہ ہیں ملک کے ڈاکٹرس اور نیم طبی عملہ۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق آج کے دن تک ملک میں کل 1017 ڈاکٹرس جاں بحق ہوچکے ہیں۔ یہ تعداد اور زیادہ بھی ہوسکتی ہے کیوں کہ IMA صرف ان ڈاکٹروں کے بارے میں جانکاری دے سکتا ہے، جو اس سے منسلک ہوتے ہیں۔ جبکہ مجموعی طور پر پورے ہندوستان میں تقریباً بارہ لاکھ ڈاکٹرس موجود ہیں۔ جہاں ایک جانب ہر ہندوستانی شہری ملک کے ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کے لیے تعریف و ستائش کے علاوہ کوئی اور الفاظ نہیں ہیں۔ وہیں دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ ملک کا نظام صحت مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے اور وہ کام نہیں کر رہا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔ آئیے جانتے ہیں اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟

ہندوستان کا طبی بجٹ

یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آزادی کے بعد سے ہندوستان کا دفاعی بجٹ ہر سال نو فیصد بڑھایا جاتا رہا ہے، 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان دنیا میں اپنے دفاع پر خرچ کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہیں دوسری جانب ملک کا طبی بجٹ آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک سالم حقیقت ہے کہ گزشتہ پندرہ سال کے دوران ملک کا طبی بجٹ GDPکے ایک فیصد پر ہی ٹکا ہوا ہے۔ 2004 میں حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلے پانچ سال میں ملک کے طبی بجٹ کو GDPکے دو یا تین فیصد کے قریب لے آئی گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایسا ہی ایک وعدہ 2017 میں قومی طبی پالیسی کے اعلان کے ساتھ کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ 2025 تک ہم اپنی GDPکا 2.5 فیصد نظامِ صحت پر خرچ کریں گے۔ لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے شعبۂ صحت پر خرچ کیے جانے والی رقم میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں دیکھا گیا ہے۔


گزشتہ سال 12 مئی کو مرکزی حکومت نے شعبۂ صحت کے لیے 20 لاکھ کروڑ روپئے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا تھا، لیکن درحقیقت یہ رقم بھی GDPکے صرف 0.008 فیصد ہی ہے۔ درحقیقت اس پیکیج کے ذریعہ نجی شعبے کے اسپتالوں اور میڈیکل کمپنیوں کو حکومتی امداد مہیا کرانا تھا۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران نجی اسپتالوں نے صرف 10 فیصد کورونا مریضوں کا علاج کیا ہے اور یہ علاج کافی مہنگا بھی تھا۔

آزادی کے بعد سے مختلف حکومتوں نے ملک کے ہر کونے میں گاؤں سے شروع ہو کر ضلع اور تحصیل کی سطح تک پرائمری ہیلتھ سینٹر سے لے کر ضلع اسپتال تک طبی مراکز بنانے کی ابتدا کی تھی۔ اور یہ ہیلتھ سینٹر اور اسپتال ایک بڑی حد تک عوام کی ضروریات کو پورا کر رہے تھے۔ تاہم 1990 کے بعد سے ملک میں پرائیویٹ اسپتالوں کو شروع کرنے کی ایک مہم کے تحت ہر بڑے شہر میں بڑے بڑے سپر اسپیشلٹی ہاسپٹل بنانے کی ایک وبا سی پھیل گئی اور دانستاً حکومتی نظامِ صحت کو چرمرانے اور ختم ہونے پر مجبور کردیا گیا تھا۔ 1951 کے بعد سے ملک میں ڈاکٹروں کی مجموعی تعداد میں نو فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہر دس ہزار افراد پر ڈاکٹروں کی تعداد میں کمی ہی واقع ہوئی ہے۔


اس کے ساتھ ہی اب تک ہندوستان سب کو صحت مہیا کرانے کے ہدف میں بھی کافی پیچھے رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے سب کو صحت مہیا کرانے کے لیے یونیورسل ہیلتھ کوریج پروگرام شروع کیا تھا اور ہر سال 12 دسمبر کو عالمی یومِ صحت منانے کا اعلان کیا تھا۔ 2010 میں ایک اعلیٰ سطحی ایکسپرٹ گروپ کے مشورے پر ہندوستان کے لیے یونیورسل ہیلتھ کوریج کو پلاننگ کمیشن نے اپنے ہدف میں شامل کیا تھا جس کے ذریعے ہر ہندوستانی شہری کو طبی سہولیات اس کے گھر کے قریب، کم پیسوں اور ماہرانہ انداز میں مہیا کرانے کا عزم کیا گیا تھا تاہم بڑی مایوسی کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستان اس ہدف کو پانے میں ناکام رہا ہے۔

ہمارے نظامِ صحت کو درپیش چیلنجز

اگر ہم مجموعی طور پر ملک کے نظامِ صحت کا ایک طائرانہ جائزہ لیں تو جو وجہ سب سے زیادہ ہمارے نظامِ صحت کو خراب یا کمزور کرنے کے لیے پائی جاتی ہے وہ ہے نظامِ صحت کا صرف تجارتی طور طریقوں پر چلانا۔ سب سے پہلے طبی تعلیم کو مہنگا کیا گیا جس کے ذریعے اس میں بدعنوانیوں کا کھیل شروع ہوگیا۔ مختلف میڈیکل کورسس میں داخلے کے لیے پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مینجمنٹ اپنے مینجمنٹ کوٹے کے ذریعے مختلف کورسس میں سیٹوں کو زیادہ سے زیادہ دام پر بیچنے لگے۔ جہاں ایک جانب یہ طالب علم اپنے پیشے اور اس سے متعلق ضوابط کو ہر طریقے سے ماننے کے لیے تیار دیکھے گئے وہیں دوسری جانب ان کو اپنے والدین کے ذریعے خرچ کیے گئے پیسوں کو واپس کمانا بھی ایک چیلنج تھا۔


اس کے ساتھ ہی کارپوریٹ ہاسپٹل جو بڑی بڑی تنخواہوں پر ڈاکٹروں کو اپنے یہاں نوکری دینے میں پیش پیش رہتے تھے وہ بھی اس شعبے کی کارکردگی اور اس سے منسلک ڈاکٹروں کی شبیہ کو خراب کرنے میں کافی نمایاں رہے۔ کسی بھی کارپوریٹ ہاسپٹل میں جب آپ کی تقرری ہوتی ہے تو آپ کو ماہانہ اور سالانہ ٹارگیٹ دے دیئے جاتے ہیں جنھیں آپ کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ مریضوں کو مہنگا علاج مہیا کرا کے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم اپنے تجزیے کا دائرہ کچھ اور بڑھا لیں تو ہم پائیں گے کہ نظامِ صحت سے متعلق ہر ادارے کی سربراہی ڈاکٹرس نہیں بلکہ عام آئی اے ایس آفیسرز کر رہے ہیں۔

یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہندوستان جسے ترقی پذیر ملکوں کی فارمیسی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں کی دواساز صنعت کافی بڑی اور تجربے کار ہے، لیکن ساتھ ہی ہندوستان کو نقلی دوائیں بنانے کا ایک بڑا مرکز بھی مانا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دواؤں کی قیمتیں طے کرنے والے ادارے یعنی Drug Pricing Office کا رول سامنے آتا ہے، جو کہ مختلف ادویات کی قیمتیں طے کرتا ہے، یہاں دیکھنے میں آتا ہے کہ جن دواؤں کے تیار کرنے پر صرف چند روپئے خرچ ہوتے ہیں، ان کے دام پانچ سو سے ہزار فیصد بڑھا کر لکھے جاتے ہیں جو کہ بدعنوانی کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں نجی شعبے کے اسپشلٹی اور سُپر اسپیشلٹی اسپتالوں کا پورا ایک جال بچھ گیا ہے، جن کا اصل مقصد صرف اپنے لیے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے نہ کہ مریض کو مناسب داموں پر اچھی طبی سہولیات مہیا کرانا۔


مستقبل کا منصوبہ

دنیا بھر میں ہر ملک اور اس کی حکومت کی کارکردگی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اس کے پروگرام یہ طے کرتے ہیں کہ اس ملک میں کتنی ترقی کی ہے۔ ساتھ ہی کس سطح کی طبی سہولیات عوام کو مہیا کرائی جاتی ہیں وہ بھی اس کا ایک خاص عنصر ہوتا ہے۔ ہندوستان اس کارکردگی میں کافی پیچھے ہے اور اگر ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو ہمیں اپنے نظامِ صحت کو جلد سے جلد تبدیل کرنے کی کوششوں پر کام کرنا ہوگا۔ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ لازم کرنا ہوگا کہ ملک میں مہیا کرائی جانے والی طبی تعلیم نجی اداروں کے بجائے صرف حکومت کے تعلیمی اداروں کے ذریعے ہی مہیا کرائی جائے۔ دوم، ہم کسی طالب علم کو ڈاکٹری کی سند دیں اس سے پہلے ہمیں یہ لازم کرنا ہوگا کہ ہر Intern ڈاکٹر کم سے کم دو سال کے عرصے تک گاؤں کی سطح پر کام کرنے والے طبی مراکز میں زیرِ تربیت رہے۔ کیوں کہ اس طرح سے وہ عوام کی ضروریات سے بہتر طور سے واقف ہوسکے گا اور ساتھ ہی ہمدردانہ طریقے سے اپنی پیشہ وارانہ صلاحیت کے ذریعے ان کی دیکھ بھال بہتر طور پر کرسکے گا۔

تیسرے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کس طرح کم سے کم پیسے پر مختلف ادویات مریضوں تک پہنچائیں۔ چوتھے ہمیں بڑی دوا ساز کمپنیوں کی تشہیری مہم پر بھی لگام کسنا ہوگی کہ وہ ڈاکٹروں کو مہنگی دوائیں اور مہنگے طریقۂ علاج کے لیے راغب کرنے کی کوشش ختم کردیں۔ آخری اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ملک کا طبی نظام حکومت کے زیرِ انتظام رہے نہ کہ نجی کارباریوں کے ہاتھ، جب تک یہ نہیں ہوگا اس وقت تک ہم اپنے ہر شہری کو اچھا، کم قیمت اور بااثر نظامِ صحت مہیا نہیں کراسکتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔