ہندوستانی خواتین میں تمام کینسرز کے مقابلے چھاتی کا کینسر 80 فیصد ہوتا ہے

شہری علاقو ں میں (22) خواتین میں ایک اور دیہی علاقوں میں (60) خواتین میں ایک کی شرح سے متاثر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں اس کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

حیدرآباد: پبلک گارڈن واکرس ایسوسی ایشن کا ماہانہ ہیلتھ لکچر اندرا پریہ درشنی آڈیٹوریم باغ عامہ حیدرآباد میں صبح کی اولین ساعتوں میں بصدارت غلام یزدانی چیرمین پبلک گارڈن واکرس ایسوسی ایشن منعقد ہوا۔اسے ڈاکٹر ٹی۔ پی۔ ایس بھنڈاری سینئر کنسلٹنٹ، سرجیکل آنکولوجی، روبوٹک اینڈ آنکوپلاسٹک سرجن، اپولو کینسر انسٹی ٹیوٹ، اپولو ہاسپٹلس، حیدرآباد نے بعنوان ”چھاتی کا کینسر قابل علاج ہے“ مخاطب کیا۔

انہوں نے کہا کہ چھاتی کا کینسر مہلک ہوسکتا ہے۔ ایسا کینسر جسم کے دیگر اعضاء کو بھی متاثر کرسکتا ہے۔ اس نوعیت کا کینسر مردوں کو بھی ہوتا ہے اور وہ بھی خطرناک ہوتا ہے۔ ہندوستانی خواتین میں تمام کینسرز کے مقابلے یہ (80) فیصد ہوتا ہے۔ یہ خواتین کی زندگی میں (28) خواتین کے منجملہ ایک کو اس کی زندگی میں کبھی بھی متاثر کرسکتا ہے۔ شہری علاقو ں میں (22) خواتین میں ایک اور دیہی علاقوں میں (60) خواتین میں ایک کی شرح سے متاثر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں اس کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔


اس مرض میں عمر، جنس، جیننی پس منظر اور کینسر سے متعلق فیملی ہسٹری دیکھی جاتی ہے۔ اس نوعیت کے کینسر سے بچاؤ کے لیے پابندی سے ورزش، مناسب جسمانی وزن، تمباکو نوشی، شراب نوشی کی زیادتی سے اجتناب اور چھاتی سے دودھ پلانے میں احتیاط کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ خواتین کیلئے 30 سال عمر کے بعد سے مناسب احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ یہ قابل علاج ہے۔ البتہ ابتدائی مراحل میں قابل توجہ ہے۔ اول اور دوئم مراحل کے ٹیومر صد فی صد قابل علاج ہیں، چوتھے درجہ کا ٹیومر پھیل جاتا ہے۔

اس میں صرف22 فیصد علاج میں کامیاب ہوتے ہیں۔ چھاتی کے کینسر میں گڈے کا نمودار ہونا او دودھ کے نپل میں تبدیلی، چھاتی کے سائیز میں تبدیلی اور ایک جانب سوجن اس مرض کے آثار ہیں۔ جس کے لیے فوری طبی مشورے کے لیے رجوع ہونا چاہیے۔ صحیح تشخیص کے لیے بائیپوسی ضروری ہے۔ میسکوٹومی چھاتی کے جملہ متاثرہ حصے کو نکال دینے کے علاج کا نام ہے۔ بعض صورتوں میں مریض کی خود کی کھال، چربی اور عضلات آپریشن کے بعد جڑدیئے جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */