گٹھیا کا درد کیسے کم ہو؟

پرانی جرمن کہاوت ہے پیار، آگ، کھانسی، خارش اور گٹھیا، چھپائے نہیں چھپتے۔ سو ایک طرف تو آپ گٹھیا کی وجہ سے تکلیف دہ سوجن کو نہیں چھپا سکتے، ساتھ ہی جوڑوں کی سوزش آپ کے لیے متعدد مسائل کا باعث ہوتی ہے۔

تصویر ڈی ڈبلیو ڈی
تصویر ڈی ڈبلیو ڈی
user

ڈی. ڈبلیو

ایک طویل عرصے تک گٹھیا کو امیروں کی بیماری سمجھا جاتا تھا یعنی ایسے افراد جو عیش و عشرت والی زندگی گزارتے ہوں۔ کیوں کہ کہا جاتا تھا کہ یہ لوگ بس آرام ہی آرام کرتے ہیں اور اس لیے گٹھیا کی بیماری انہیں آن لیتی ہے۔ مگر اب گوشت اور الکوحل سبھی کو میسر ہے۔ اس لیے اگر آپ گٹھیا کی بیماری سے بچنا چاہتے ہیں، تو ایک اصطلاح یاد رکھیے ’پورائن‘۔

ہمارا جسم سفید شفاف قلمیں پیدا کرتا ہے، مثال کے طور پر ایسی قلمیں ہماری جلد اور جسم کے دیگر حصوں میں موجود ہوتی ہیں، جب ہم خوراک کا استعمال کرتے ہیں، تو یہ قلمیں یورک ایسڈ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہی یورِک ایسڈ ہی ہے، جو گٹھیا کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے تو یہ یاد رکھیے کہ ایسی خوراک کا استعمال کم سے کم کیجیے، جو جسم میں پورائن کی سطح بلند کرتی ہو۔ جسم میں یورِک ایسڈ کی بلند سطح کو ’ہائپریوریکیمیا‘ کہا جاتا ہے۔

ایسے افراد جنہیں گٹھیا کے خطرات لاحق ہیں، اگر وہ ایسی خوراک کا استعمال کریں، جس میں پورائن کم ہو یا ایسی خوراک بالکل استعمال نہ کریں، جو ان قلموں سے بھری ہوں، تو وہ اس بیماری سے باآسانی بچ سکتے ہیں۔

دیگر بیماریوں کی صورت میں تو ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں کہ پھل اور سبزیاں کھائیں اور صحت مند ہو جائیں، مگر بدقسمتی سے گٹھیا کی صورت میں ڈاکٹر یہ بھی نہیں کہہ سکتے۔ وجہ یہ ہے کہ بہت سی سبزیاں اور پھل ایسے ہیں، جو پورائن سے بھرے ہیں، مثال کے طور پر پالک یا اپسراگس وغیرہ اسی طرح ناشپاتی، دالیں اور پھلیاں بھی پورائن کی بڑی مقدار کی حامل ہیں۔ ان غذاؤں کے سو گرام میں کوئی ڈیڑھ سو سے دو سو ملی گرام پورائن موجود ہوتا ہے۔

گٹھیا کی صورت میں بھنے گوشت، مرغ روسٹ اور اس انداز کی دیگر غذاؤں کا تو سوچیے گا بھی مت۔ گائے کے گوشت کے سو گرام میں تین سو ساٹھ ملی گرام کے برابر پورائن ہوتا ہے۔

اس لیے گیہوں کی روٹی، چاول، آلو، گاجر، گوبھی، ٹماٹر، سیپ، دہی اور چیز کھائیے۔ ٹماٹر اور سیب کے سو گرام میں قریب پندرہ ملی گرام تک پورائن ہوتی ہے، جو انتہائی کم مقدار ہے۔ اس لیے صحت مند غذا کھائیے اور گٹھیا سے دور رہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔