جشنِ ریختہ: اردو صحافت  میں انصاف کے لئے کھڑے ہونے کی خوبی ہے، ظفر آغا

’’اردو مسلمانوں کی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی زبان ہے۔ ہندوستان کی آزادی کی زبان اردو تھی اور سب سے سیکولر زبان اردو ہے‘‘

تصویر بشکریہ روی راج سنہا
تصویر بشکریہ روی راج سنہا
user

زنیرہ بخش

نئی دہلی: جشن ریختہ کے ایک اہم اجلاس میں اردو صحافت کے 200 اسال مکمل ہونے پر گفتگو ہوئی، جس میں قومی آواز کے مدیر ظفر آغا، نئی دنیا کے مدیر شاہد صدیقی اور صحافی ندیم صدیقی نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی نظامت روزنامہ انقلاب کے سابق مدیر شکیل حسن شمسی نے کی۔

اجلاس کے دوران تینوں مقررین نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں اردو صحافت کے کردار کی نشاندہی کی۔ خیال رہے کہ پہلا اردو اخبار ’جام جہاں نما‘ تھا، جس کا لفظی مطلب دنیا کی خبریں ہے۔ یہ اخبار 27 مارچ 1822 کو کولکاتا سے شائع ہوا تھا۔


اردو صحافت کی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے ظفر  آغا نے کہا کہ ’’اس زمانے میں  آہستہ آہستہ اردو اخبارات پورے ہندوستان میں پھیلنے لگے اور اردو کے قارئین کی تعداد ان دنوں کے ہندی اخبارات کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ اردو صحافت کا آغاز غالب، بہادر شاہ ظفر اور میر تقی میر کے دور میں ہوا۔ یہ  دور بہت مشکل تھا کیونکہ اس دور کے  صحافی انگریزوں کے خلاف لکھ رہے تھے۔‘‘

مقررین نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی تک اردو صحافت میں کافی ترقی ہوئی تھی۔ آئی آئی ایم سی یعنی انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن کی پروفیسر مرنال چٹرجی نے اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہونے پر تحریر کیا ہے  کہ تقسیم کے وقت ہندوستان میں 415 اردو اخبارات شائع ہوتے تھے، جن میں تمام روزنامہ، ہفتہ وار، پندرہ روزہ اور ماہانہ رسالے شامل تھے۔ تقسیم کے بعد ان میں سے 345 ہندوستان میں رہ گئے جبکہ  70 اخبارات کے مالکان پاکستان ہجرت کر گئے۔ 1957 کی آر این آئی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں  513 اردو اخبارات تھے اور ان کی مشترکہ سرکولیشن 7.48 لاکھ تھی۔ پچاس سال بعد ہندوستان میں صرف  اردو روزناموں کی تعداد 3168 تھی اور تمام اردو اخبارات کی مشترکہ سرکولیشن آ ر این آئی 2007 کی رپورٹ کے مطابق 1.7 کروڑ تھی۔


مقررین نے کہا کہ آزادی سے پہلے جو لوگ اردو پڑھ لکھ سکتے تھے ان کے لئے یہ اردو اخبار ہندوستان میں ہونے والے واقعات کے بارے میں معلومات کا ذریعہ بن گئے۔ ظفر  آغا نے کہا، ’’اردو صحافت میں مزاحمت اور انصاف کے لیے کھڑے ہونے کی خوبی ہے۔ یہ اردو صحافیوں کی عادت بن گئی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔‘‘

صحافی ندیم صدیقی نے مہاراشٹر جیسی ریاستوں میں اردو زبان اور اردو صحافت کی حالت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مراٹھی زبان میں بہت سے الفاظ اردو، فارسی اور عربی زبانوں سے ماخوذ ہیں اور سیاسی الفاظ میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’’بہت سارے اردو اخبارات جیسے انقلاب، اردو ٹائمز اور ہندوستان وغیرہ شائع ہو رہے ہیں لیکن ان میں سے شائد ہی کوئی اثر انداز ہو رہا ہے۔‘‘


اس موقع پر شاہد صدیقی نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کو سمجھنے کے لیے بھگت سنگھ اور لالہ راجپت رائے جیسے رہنماؤں کے خطوط اور تحریروں کو پڑھنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے زیادہ تر اردو زبان میں لکھا ہے۔

اس لیے اردو مسلمانوں کی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی زبان ہے۔ ہندوستان کی آزادی کی زبان اردو تھی، سب سے سیکولر زبان اردو تھی اور اردو صحافت کے ذریعے امیر اور غریب لوگوں کی کہانیاں سامنے آئیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔