جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو

شکیل بدایونی اپنی شاعری کی بے پناہ کامیابی سے حوصلہ پاکر شکیل بدایونی نے سپلائی افسر کی نوکری چھوڑ دی اور 1946 میں ممبئی آ گئے جہاں ان کی ملاقات اس وقت کے عظیم موسیقار نوشاد سے ہوئی۔

تصویر سوشل میڈیا بشکریہ سبگرو ڈاٹ کام
تصویر سوشل میڈیا بشکریہ سبگرو ڈاٹ کام
user

یو این آئی

مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے 'میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں ' اتر پردیش کے بدایوں قصبے میں 03 اگست 1916 کو پیدا ہوئے شکیل احمد عرف شکیل بدایونی بی اے کرنے کے بعد سال 1942 میں دہلی پہنچے اور سپلائی محکمہ میں ملازمت کرلی۔ اس دوران وہ مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے جس سے انہیں پورے ملک میں شہرت حاصل ہوئی۔

اپنی شاعری کی بے پناہ کامیابی سے حوصلہ پاکر شکیل بدایونی نے سپلائی افسر کی نوکری چھوڑ دی اور 1946 میں دہلی سے ممبئی آ گئے۔ ممبئی میں ان کی ملاقات اس وقت کے مشہور فلمساز اے آر کاردار اور عظیم موسیقار نوشاد سے ہوئی۔


نوشاد کے کہنے پر شکیل نے 'ہم دل کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے، ہر دل میں محبت کی آگ لگا دیں گے' گیت لکھا۔ یہ گیت نوشاد کو کافی پسند آیا جس کے بعد انہیں فوراََ کاردار صاحب کی 'درد' کے لیے سائن کر لیا گیا۔ سال 1947 میں اپنی پہلی ہی فلم 'درد' کے گیت 'افسانہ لکھ رہی ہوں' کی بے پناہ کامیابی سے شکیل بدایونی کامیابی کی چوٹی پر جا بیٹھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔