مسلم مخالف نفرت کی کھیتی پر ووٹوں کی فصل!

واشنگٹن ڈی سی کی تنطیم 'ہندوتوا واچ' کی ششماہی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں کی جانے والی نفرت انگیز تقریریں یوں ہی نہیں کی جاتیں بلکہ ان کا خاص مقصد ہوتا ہے

<div class="paragraphs"><p>بشکریہ ہندوتوا واچ</p></div>

بشکریہ ہندوتوا واچ

user

قومی آوازبیورو

رقیب حمید، آروشی سریواستو اور ابھیودیا تیاگی

نفرت انگیز تقریر معاشرے کو کئی طرح سے متاثر کرتی ہیں۔ یہ روزمرہ کی زندگی کو درہم برہم کر سکتی ہے، برادریوں کو غیر مستحکم اور بے گھر کر سکتی ہے، گھروں کو تباہ کر سکتی ہے اور پسماندہ افراد کے خلاف مہلک فسادات اور قتل عام کو ہوا دے سکتی ہے۔ 2023 کے پہلے چھ مہینوں کے دوران ہندوستان میں ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے جب نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم نے مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھایا۔

30 مارچ کو رام نومی کی تعطیل کے موقع پر کٹر ہندو رہنما کاجل سنگلا عرف کاجل ہندوستانی نے مسلم خواتین کے خلاف نفرت انگیز تبصرے کیے، جس سے مغربی ریاست گجرات میں فسادات بھڑکانے میں مدد ملی۔ اسی دن ہندوستان کی مشرقی ریاست بہار میں شوبھا یاترا کے جلوس کے دوران اشتعال انگیز اور نفرت انگیز نعرے لگائے جانے کی وجہ سے بہار شریف میں تشدد پھوٹ پڑا جس میں ایک شخص ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ جون میں کولہاپور، مہاراشٹر میں بڑے پیمانے پر اور بار بار نفرت انگیز تقریر کے نتیجے میں مغربی ریاست میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، جب کہ شمالی ریاست اتراکھنڈ میں انتہائی دائیں بازو کی ہندو سازشوں کے نتیجے میں ایک ماہ تک 'لو جہاد'، 'بزنس جہاد' اور 'زمین جہاد' مخالف مہم چلائی گئی اور ریاست کے کئی حصوں سے مسلمانوں کو بے گھر کر دیا گیا۔ مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ان کی دکانوں اور گھروں پر سیاہ رنگ سے 'کراس' کے نشانات بنا دیے گئے۔

اس رپورٹ کے مطابق مسلم مخالف بیانات دینے والوں میں وزیر اعلیٰ، ارکان اسمبلی اور بی جے پی کے سینئر لیڈران شامل ہیں۔ لو جہاد، لینڈ جہاد، حلال جہاد اور کاروباری جہاد جیسے سازشی نظریات کو ابھارنے کا مقصد ہندو قوم پرستی (ہندوتوا) کے ذریعے انتخابی فوائد حاصل کرنا ہے۔

دہلی میں قائم ایک سماجی و ثقافتی تنظیم ایکٹ ناؤ فار ہارمونی اینڈ ڈیموکریسی (انہد) کے مطابق 2014 میں مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور جرائم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں ایک میڈیا رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ اعلیٰ حکام کی گفتگو میں فرقہ وارانہ منافرت میں 500 فیصد اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے 2014 سے 2018 کے درمیان ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تعزیرات ہند کی دفعہ 153-اے کے تحت درج مقدمات میں 2014 اور 2020 کے درمیان 500 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ دفعہ 153-اے کے مقدمات نفرت انگیز تقریر کی ہماری تعریف سے براہ راست مطابقت نہیں رکھتے، تاہم ان میں ایسے واقعات شامل ہیں جن کے لیے پولیس نے مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش یا زبان کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کے لیے مقدمہ درج کیا۔


ہندوتوا واچ کی کئی مہینوں کی وسیع تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 کے پہلے چھ مہینوں (181 دنوں) میں قومی راجدھانی دہلی اور مرکز کے زیر انتظام علاقے جموں و کشمیر سمیت ہندوستان کی 17 ریاستوں میں عوامی جلسوں اور ریلیوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی نفرت انگیز تقاریر کے 255 معاملات درج کیے گئے۔ یہ تشویشناک اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں ہر روز اوسطاً ایک سے زیادہ مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں۔

سب سے زیادہ نفرت انگیز واقعات بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں پیش آئے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس طرح کی نفرت انگیز تقریر کا ایک بڑا حصہ ان ریاستوں سے متعلق ہے جہاں 2023 کے دوران اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلم مخالف نفرت انگیز بیانات کا مقصد ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متحرک کرنا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان نفرت انگیز تقاریر کے زیادہ تر واقعات میں لوگوں کو کھلے عام سازشی تھیوریوں سے مسلح ہونے کی اپیل کی گئی، مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکسایا گیا، سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا۔

یہ ڈیٹا سیٹ ہندوستان میں نفرت انگیز تقریر کے کیسز کا مکمل جائزہ نہیں ہے۔ کئی ایسے واقعات ہیں جن کی یا تو کوئی فوٹیج دستیاب نہیں یا پھر ان فوٹیج کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اس رپورٹ میں موجود اعداد و شمار اصل واقعات سے بہت کم ہیں اور اس کا مقصد ہندوستان میں نفرت انگیز تقریر کی نوعیت کو اجاگر کرنا ہے اور یہ ظاہر کرنا ہے کہ اسے وسیع جغرافیائی پیمانے پر کیسے پھیلایا جا رہا ہے۔

ہم نے 15 ریاستوں اور دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقریر کے واقعات کا مشاہدہ کیا جہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے براہ راست بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ جن ریاستوں میں اس طرح کی نفرت انگیز تقریر کے بہت کم یا کوئی واقعات نہیں تھے وہ بنیادی طور پر ملک کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں واقع تھیں۔ غور طلب ہے کہ ان علاقوں میں بی جے پی کا انتخابی اثر نسبتاً کم ہے۔ نفرت انگیز تقریر کے تقریباً 29 فیصد واقعات مہاراشٹر میں ہوئے، حالانکہ یہ ہندوستان کی کل آبادی کا صرف 9 فیصد ہے۔


مہاراشٹرا کو ایک مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے جو اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ کس طرح کمزور انتخابی حمایت والے علاقوں میں بی جے پی مسلم مخالف نفرت انگیز تقریر کا پرچار کرنے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ جون 2022 میں بی جے پی حکمران اتحاد میں پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوئی اور اسے بغیر کسی انتخابی مینڈیٹ کے اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔

2024 میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر ریاست میں مسلم مخالف جذبات پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں جیسے کرناٹک (اب کانگریس کی حکمرانی والی)، مدھیہ پردیش اور گجرات میں نفرت انگیز تقاریر کے بڑے پیمانے پر واقعات دیکھے گئے۔ ان ریاستوں میں سے ہر ایک میں عوامی جلسوں میں 20 یا اس سے زیادہ نفرت انگیز تقاریر دی گئیں۔ اس معاملہ میں صرف ایک استثناء راجستھان تھا، جو کانگریس کی حکمرانی والی ریاست تھی اور جہاں سال کے آخر میں انتخابات ہونے جا رہے ہی۔

حال ہی میں چھوٹی ریاست اتراکھنڈ میں ایک انتہائی تشویشناک رجحان دیکھا جا رہا ہے جہاں سال کی پہلی ششماہی میں نفرت انگیز تقاریر کے 13 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2023 کی پہلی ششماہی میں ہندوستان میں نفرت انگیز واقعات میں سے 5 فیصد اتراکھنڈ میں ہوئے، حالانکہ اس ریاست کی آبادی ہندوستان کی کل آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ تقریباً 131 واقعات میں یا تقریباً 51.3 فیصد ڈیٹاسیٹ میں مسلم مخالف سازش کے بڑے نظریات پھیلائے گئے تھے۔ کچھ سازشی نظریات جن پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے وہ ہیں لو جہاد، لینڈ جہاد اور ’عظیم تبدیلی کی سازش‘ کا ہندوتوا ورژن۔ متبادل سازش کا نظریہ فرانسیسی مصنف آر کیماس نے دیا تھا، جس کے مطابق سفید فام یورپیوں کی آبادی کی جگہ مسلم ممالک کے لوگ لے رہے ہیں۔

شاید سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ 83 واقعات میں (تقریباً 33 فیصد) لوگوں کو ہندوتوا گروپوں نے براہ راست تشدد پر اکسایا۔ اس میں مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کے مطالبے کے علاوہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو تباہ کرنے کی اپیل بھی شامل تھی۔ اس طرح کے پرتشدد بیانات کا استعمال کرنے والوں کو سزا نہیں دی گئی اور انہون نے تشدد کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔


ہتھیار رکھنے کے مطالبہ کے ایسے 30 واقعات (12 فیصد) بھی رونما ہوئے جن میں ہندوتوا لیڈروں نے اکثریتی برادری کے ارکان سے کہا کہ وہ ہتھیار خریدیں اور اپنے پاس رکھیں۔ اس سلسلے میں ’ترشول تقسیم‘ پروگرام کا خاص ذکر کیا جا سکتا ہے جس میں ہندوتوا لیڈروں نے منظم طریقے سے ہندو نوجوانوں میں ہتھیار تقسیم کیے تھے۔ ان واقعات میں اکثر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر شامل ہوتی تھیں، اس لیے انہیں اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

نفرت انگیز تقاریر کے 27 واقعات (11 فیصد) ایسے بھی تھے جن میں مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کا براہ راست مطالبہ کیا گیا۔ اس میں لوگوں سے کہا گیا کہ مسلمانوں کو ریاست سے نکالنے کی کوشش کی جائے اور وہ مسلمانوں سے سامان خریدنا اور خدمات لینا بند کریں۔

چونتیس (13 فیصد) پروگراموں میں کرناٹک کے سابق نائب وزیر اعلی کے ایس ایشورپا، دہلی بی جے پی کے نائب صدر کپل مشرا، آسام کے وزیر اعلی ہمانتا بسوا سرما اور رکن پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر سمیت بی جے پی لیڈروں کی تقریریں شامل ہیں۔ 255 واقعات میں سے 11 میں براہ راست مسلم خواتین کو نشانہ بنایا گیا اور ان میں جنس پرست اور خاتون مخالف تقریر بھی شامل تھی۔ ان میں سے زیادہ تر واقعات (70 فیصد) ان ریاستوں میں ہوئے جہاں 2023 اور 2024 میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ خاص طور پر 85 (33 فیصد) واقعات پانچ ریاستوں – راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، کرناٹک اور تلنگانہ میں ہوئے – جہاں اس سال اسمبلی انتخابات منعقد ہوئے یا ہونے والے ہیں۔

اس رجحان کو دیکھ کر اس بات کا امکان نظر آتا ہے کہ انتہا پسند ہندوتوا گروپ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد پھیلا رہے ہیں تاکہ وہ ہندوؤں کو پولرائز کر کے انتخابی فائدہ حاصل کر سکیں۔

وشو ہندو پریشد (وی اچ پی) اور بجرنگ دل کی طرف سے نفرت انگیز تقریر کے کئی پروگرام منعقد کیے گئے۔ انہوں نے 2023 کی پہلی ششماہی میں 62 مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کے پروگراموں کا اہتمام کیا۔ انہیں ایک تنظیم کے طور پر رکھا گیا ہے کیونکہ بجرنگ دل وی ایچ پی کا یوتھ ونگ ہے اور حال ہی میں وہ اپنے زیادہ تر عوامی پروگرام مشترکہ طور پر منعقد کر رہے ہیں۔ دونوں تنظیموں کی مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر پھیلانے اور ملک بھر میں مسلم مخالف تشدد میں سہولت فراہم کرنے کی بدنام زمانہ تاریخ ہے اور یہ تنظیمیں سنگھ پریوار کا حصہ ہیں۔

جب کانگریس نے کرناٹک میں اپنی انتخابی مہم کے ایک حصے کے طور پر بجرنگ دل پر پابندی لگانے کی تجویز پیش کی تو وزیر اعظم نریندر مودی نے اس تنظیم کا سختی سے دفاع کیا۔ ہندوستان میں جیسے جیسے بی جے پی اقتدار میں مضبوط ہوتی جا رہی ہے، اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ بجرنگ دل اور وی ایچ پی نے پولیس کے ساتھ مل کر بین مذہبی جوڑوں میں علیحدگی کرائی اور اس طرح یہ تنظیمیں لو جہاد کی مسلم مخالف سازش کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کرناٹک انتخابات کے دوران بہت زیادہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں اور بی جے پی خود ایسے کئی واقعات کی ذمہ دار ہے۔ اس عرصے کے دوران بی جے پی کے کئی لیڈروں نے مسلم مخالف نفرت انگیز جذبات کو بھڑکانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔


مہاراشٹر میں نفرت انگیز تقریر کے پروگرام منعقد کرنے میں نمایاں طور پر ملوث ایک اور تنظیم سکل ہندو سماج ہے۔ یہ تنظیم خاص طور پر مہاراشٹر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر سے متعلق پروگرام منعقد کرتی رہی ہے۔ ’سکل ہندو سماج‘ ریاست میں سرگرم تمام ہندو قوم پرست تنظیموں کا اتحاد ہے۔ نفرت پھیلانے والے اور ٹی وی نیوز چینل سدرشن نیوز کے چیئرمین سریش چوہانکے اس کی تقریبات میں مستقل مقرر ہوتے ہیں ہیں۔ چوہانکے ہمارے ڈیٹا بیس میں نفرت انگیز تقریر کے کئی واقعات کے ذمہ دار ہیں۔ سکل ہندو سماج کی طرف سے منعقد ہونے والی میٹنگوں میں ایک اور بار بار بولنے والے ٹی راجہ سنگھ ہیں۔ ٹی راجہ تلنگانہ میں بی جے پی رکن اسمبلی تھے اور پیغمبر اسلام کے خلاف قابل اعتراض تبصروں کی وجہ سے انہیں پارٹی سے معطلی کا سامنا کرنا پڑا۔ سنگھ کئی نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں سرگرم عمل رہے، جس میں لو جہاد سازشی تھیوری کو فروغ دیا گیا اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کی دھمکی دی گئی۔ اپنی معطلی کے باوجود سنگھ بی جے پی کے ساتھ قریب سے جڑے ہوئے ہیں اور مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے یہاں تک اشارہ دیا ہے کہ ان کی معطلی کو جلد ہی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ خبروں کے مطابق ٹی راجہ سنگھ نے بی جے پی کے اعلیٰ قائدین سے ملاقاتیں کیں اور ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ آئندہ تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں پارٹی امیدوار یا اس کے پراکسی کے طور پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔

نفرت کے واقعات بنیادی طور پر بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں مرکوز ہیں۔ رپورٹ میں بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں تقریباً 205 واقعات درج کیے گئے ہیں، جن میں قومی راجدھانی کے علاقے دہلی اور جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اضافی 15 واقعات شامل ہیں جہاں پولیس اور امن و امان بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 80 فیصد واقعات بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں یا بی جے پی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں پیش آئے۔

یہ اعداد و شمار خاص طور پر چونکا دینے والے ہیں، اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ ہندوستان کی صرف 45 فیصد آبادی بی جے پی کی حکومت میں آتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 8 ریاستوں میں سے 7 ریاستیں جہاں سب سے زیادہ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں وہ بی جے پی کی حکومت والی ہیں۔ مجموعی طور پر، تمام حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ غیر بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں نفرت انگیز واقعات کے ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ تاہم، اس کا واحد استثنا کانگریس پارٹی کی حکومت والی ریاست راجستھان ہے، جہاں نفرت انگیز تقاریر کے 25 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ ویسے وہاں 2023 کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ تاہم، بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں اور اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں کے درمیان یہ فرق بتاتا ہے کہ جہاں غیر بی جے پی ریاستوں میں نفرت انگیز تقاریر کے خلاف فعال قدم اٹھانے پر آمادگی ہے، وہیں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں اس طرح کی تقریبات کو منظم کرنے اور سہولت فراہم کرنے اور ان کی مدد کے لیے سرکاری طاقت استعمال کی جاتی ہے۔

رقیب حمید نائیک ایک کشمیری نژاد امریکی صحافی اور 'ہندوتوا واچ' کے بانی ہیں۔ آروشی سریواستو پیرس میں مقیم صحافی ہیں۔ ابھیودیا تیاگی کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ (کریڈٹ: hindutvawatch.org)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔