اے ایم یو کے تعلق سےیو جی سی کا نیا شگوفہ

شیعہ -سنی اور طلبہ و طالبات کو ایک ساتھ درس و تعلیم دینے کی سفارش

اے ایم یو کے طلبہ و طالبات ایک ساتھ مل کر قومی ترانہ گاتے ہوئے/تصویر قومی آواز
اے ایم یو کے طلبہ و طالبات ایک ساتھ مل کر قومی ترانہ گاتے ہوئے/تصویر قومی آواز
user

قومی آوازبیورو

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو ) سے متعلق یو جی سی کی ایک کمیٹی کی سفارشات نے غیر ضروری بحث چھیڑ دی ہے ۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ اے ایم یو میں گریجویشن کی پڑھائی کر رہے طلبہ و طالبات کو علیحدہ تعلیم کی بجائے ایک ساتھ یعنی مخلوط تعلیم کا انتظام کیا جائے اور مخلوط تعلیمی نظام کو فوری طور پر لاگو کیا جائے ۔ واضح رہے کہ اے ایم یو کے مختلف معاملات کی جانچ کے لئے یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں یہ سفارشات کی ہیں ۔ اس کمیٹی کی سفارشات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے ہی دو مرکزی وزراء نے اس سفارش کو یکسر مسترد کر دیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ’مسلم‘ لفظ ہٹا دیا جائے اور بنارس ہندو یونیورسٹی سے لفظ’ ہندو ‘ہٹا دیا جائے ۔

یو جی سی کی اس کمیٹی نے مرکزی حکومت کو سونپی اپنی رپورٹ میں طلبہ و طالبات کو پڑھائی کے دوران الگ الگ بیٹھنے کے انتظام کو غلط قرار دیتے ہوئے دلیل دی ہے کہ اس نظام کی وجہ سے طلباء پروفیشنل کورس اور پھر پڑھائی کے بعد نوکری کے دوران اپنی اپنی جھجک دور نہیں کر پاتے اور بعض اوقات انہیں اس کا نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ اس تعلق سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پی آر او راحت ابرار کا کہنا ہے کہ ’’ اگر قانونی ضابطوں اور تعلیم سے متعلق مختلف کمیشنوں کی سفارشات کو غور سے دیکھا جائے تو یہ سفارشات غیر ضروری نظر آتی ہیں ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ تعلیم سے متعلق مختلف کمیشنوں نے سفارش کی ہے کہ لڑکیوں میں تعلیم کی حوصلہ افزائی کے لئے اگر ان کے لئے علیحدہ تعلیمی اداروں کی ضرورت ہو تو بنائے جانے چاہئے ۔ دوسرا یہ کہ علی گڑھ مسلم یونورسٹی کے کچھ ہی تعلیم ڈپارٹمنٹ ایسے ہیں جہاں مخلوط تعلیم نہیں ہوتی۔ میڈیکل ، انجینئرنگ ، بی ایڈ ، ماس کمیونیکیشن اور کئی دیگر ڈیپارٹمنٹ میں مخلوط تعلیم ہوتی ہے ۔ ساتھ میں کسی بھی تعلیمی نظام کے لئے پہلے بورڈ آف اسٹڈیز اور پھر اکیڈمک کونسل سےمنظور کئے جانے کے بعد صدر جمہوریہ اس پر اپنی مہر لگاتے ہیں جس کے بعد یو جی سی ایک فند دیتا ہے ۔ یعنی ضابطوں سے گزرنے کے بعد یہ سب طے ہوتا ہے اس لئے سفارش کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ان سب چیزوں پر بھی غور کر لیا جائے‘‘۔ اے ایم یو اولڈ بوائز ایسوسیشن کے صدر محمد ارشاد کا کہنا ہے کہ ’’ یہ غیر ضروری چھیڑ چھاڑ ہے اور مسلمانوں کے جزبات سے کھیلنے والی بات ہے ۔ اس تعلق سے نہ تو کوئی مطالبہ ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے کیونکہ ہندوستان کیا بیرون ممالک میں بھی متعدد کالج یا تو خالص لڑکیوں کے ہیں یا خالص لڑکوں کے ہیں ۔‘‘۔

یو جی سی کی اس کمیٹی نے شیعہ اور سنی کے لئے الگ الگ محکموں پر بھی اعتراض ظاہر کیا ہے۔ کمیٹی میں شامل ماہرین کا ماننا ہے کہ جب شیعہ اور سنی دونوں ایک ہی مذہب کے لئے تعلیم دیتے ہیں تو دو الگ الگ محکمے کیوں بنائے گئے ہیں۔ کمیٹی نے دونوں محکموں کو ضم کرنے کی سفارش کی ہے۔ اس پر مسلم رہنماؤں اور مذہبی رہنماؤں کی رائے ہے کہ فقہ کے اعتبار سے دونوں مسلک بالکل ایک دوسر سے الگ ہیں اس لئے ضروری ہے کہ دونوں کے علیحدہ محکمے ہی ہوں ۔

علاوہ ازیں کمیٹی نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ یونیورسٹی میں گریجویشن کے کورسز کے لئے داخلے انجینئرنگ اور میڈیکل کی طرز پر قومی سطح کے تقابلی امتحان کے ذریعےہی ہوں۔ کمیٹی نے امتحان کے لئے پرچہ سوالات اور نتائج وغیر کا ایک نظام بھی تیار کرنے کی صلاح دی ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ اے ایم یو کی میرٹ کا استعمال دیگر مرکزی یونیورسٹیوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Nov 2017, 7:30 PM