سرسید ڈگری بانٹنے کا ادارہ نہیں قائم کرنا چاہتے تھے

سرسید یا علی گڑھ سے عقیدتیں ظاہر کرنے کا اور تعریفوں کے پھول سجانے کا دور ختم ہوچکا ہے، اب تاریخی غلطیوں کے تدارک کا دور ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

یو این آئی

علی گڑھ محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ 1857کے بعد ملک نے جو کروٹ بدلی اور جو نئے مسائل سامنے آئے، ان سے مقابلہ کرنے اور جدوجہد کرنے کا ایک پیمانہ عمل تھا جو سرسید کی رہنمائی میں اس زمانے میں منزل تک پہنچا تھا۔ ان خیالات کا اظہار آج یہاں انگریزی کے ممتاز صحافی محمد وجیہ الدین کی تازہ کتاب کے اجرا کی تقریب میں دانشوروں نے کیا ۔

دانشوروں نے کہاکہ سرسید نے مدرستہ العلوم قائم کیا، ایم۔اے۔او۔کالج بنایا اور بعد میں اسے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔تقریباً ڈیڑھ سو برسوں میں ظاہری طور پر وہ ادارہ اتنا پھیلا کہ آج اس کا شمار ملک اور دنیا کی ممتاز دانش گاہوں میں ہوتا ہے۔ اس ادارے سے کامیاب ہوکر نکلنے والوں میں بڑے سائنس داں، ادیب ،شاعر، کھلاڑی اور سیاست داں یعنی ہر طبقے کے افراد شامل رہے۔ہندوستان میں ہر شعبہ میں یونیورسٹی کے فارغین نے اہم کردار ادا کیا لیکن سو برس کی یونیورسٹی اب اپنے مقاصد اور حقیقی نشانات یہاں تک کہ اپنے بانی کے خوابوں سے اتنی دور چلی گئی ہے کہ شاید اب وہ کبھی وہاں لوٹ نہ سکے اور ہندستانی مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر شاید ہی قوم ڈالنا پسند کرے گی۔


مذاکرے کے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے مظہر الحق عربی و فارسی یونی ورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد حبیب الرحمان علیگ نے مادرِ علمی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے پرانے علی گڑھ اور نئے علی گڑھ کا موازنہ کیا اور محمد وجیہ الدین صاحب کے نتائج سے اتفاق کیا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ کتاب حد درجہ روانی کے ساتھ قابلِ مطالعہ ہے۔ ایک بار شروع کردیجیے تو اپنے آپ اختتام تک پہنچ جانا ہوتا ہے۔

رسمِ اجرا تقریب کی صدارت اردو کے معروف ناول نگار عبدالصمد نے کی۔ انھوں نے کہا کہ یہ کتاب ایک ایسا تعارفی صحیفہ ہے جسے ہر اس شخص کو پڑھنا چاہیے جس کی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی تاریخ میں دلچسپی ہے۔ عبدالصمد نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تاریخ کے اس لمبے سفر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے بانی کے تصور سے کہیں بھٹک گئی ہے۔ سرسید ڈگری بانٹنے کا ادارہ نہیں قائم کرنا چاہتے تھے بلکہ وہ بہترین دماغ اور انسانِ کامل کی تعمیر کا خواب دیکھ رہے تھے۔


مذاکرے میں مصنفِ کتاب محمد وجیہ الدین نے اس کتاب کی تصنیف کے اسباب و محرکات پر بہ تفصیل روشنی ڈالی۔ انھوں نے بتایا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تین برسوں کا ان کا جو تعلق ہے، اس نے کبھی اس فضا سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیا۔ عظیم آباد، دہلی اور ممبئی میں رہنے کے باوجود علی گڑھ ان کے حافظے اور دل و جان میں بستا ہے۔ اسی بات نے اس کتاب کے لیے تحریک پیدا کی۔ ذاتی وسائل اور کتب خانوں کی سیر کے علاوہ کلیدی اشخاص سے براہِ راست گفتگو جیسے تمام ذرائع کا استعمال کرکے انھوں نے اس کتاب کو ایک مکمل شکل عطا کرنے میں کامیابی پائی۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ سرسید یا علی گڑھ سے عقیدتیں ظاہر کرنے کا اور تعریفوں کے پھول سجانے کا دور ختم ہوچکا ہے، اب حقائق سے آنکھیں ملانے اور تاریخی غلطیوں کے تدارک کے لیے آگے بڑھنے کا دور ہے۔

موضوعِ مذاکرہ کا تعارف کراتے ہوئے بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے بتایا کہ انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ کتاب اپنے آپ پڑھنے والے کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصنف نے موضوع سے متعلق تحقیقی مواد کی چھان بین تو کی مگر اسے عصری تقاضوں کے مطابق کتاب میں کچھ اس طرح سے سجایا ہے کہ یہ صرف تاریخ کا گوشوارہ نہیں بلکہ عصری چیلنجز کے سامنے یونیورسٹی کے انتظام کاروں نے کب کب کس انداز سے گھٹنے ٹیکے اور کب کن لوگوں نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی، اس کا لیکھا جوکھا اس کتاب کا سب سے متاثر کن حصہ ہے۔


معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے اپنے خطاب میں کتاب کی معقولیت اور موضوع کے متعلقات پر دانش ورانہ انداز میں گفتگو کیے جانے کی توصیف کی۔ انھوں نے کہا کہ اتنے کم صفحات میں جو یہ بات کی جارہی ہے، وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے جیسا ہے۔ روزنامہ انقلاب کے بیورو چیف، صحافی جناب اسفر فریدی نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا اصل المیہ یہ ہے کہ سرسید نے جس حساس طریقے سے سماجی اور تعلیمی بیداری کا تصور پیش کیا تھا، اس انداز سے بعد کے لوگوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سلسلہ ہی بدلتا چلا گیا۔ پٹنہ لا کالج کے استاد پروفیسر محمد شریف نے اپنی تقریر میں سرسید کے تصورات کو سمجھنے کی وکالت کی اور اس بات پر زور دیا کہ زمانے کی ضرورتوں کے مطابق ہمیں نئی تعلیم کی طرف بڑھنا چاہیے۔ انھوں نے اسی مرحلے میں یہ بھی بتایا کہ آج کے دور میں اقوامِ مسلم کے بیچ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک مہم کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔