میرٹھ یونیورسٹی سے ٹاپ کرنے والی مظفرنگر کی ’ارم فاطمہ‘

ارم فاطمہ کا کہنا ہے کہ ’’انگریزی مجھے بولنے میں اچھی لگتی ہے، ہندی پڑھنے میں اور جغرافیہ سبجیکٹ مجھے بہت دلچسپ لگتا ہے اس لئے میں نے جغرافیہ کا انتخاب کیا

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

مظفرنگر: مظفرنگر کی بیٹی ارم فاطمہ نے میرٹھ یونیورسٹی (سی سی ایس یونیورسٹی) کے بی اے امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کر کے اپنے اور اپنے علاقہ کا نام روشن کر دیا ہے۔ ارم فاطمہ ایس ڈی (سناتن دھرم) کالج، مظفرنگر میں زیر تعلیم ہیں اور انہوں نے نہ صرف کالج بلکہ یونیورسٹی میں بھی اول مقام حاصل کیا ہے۔ ارم کی اس کامیابی پر ایک طرف جہاں ان کے والدین بے حد خوش ہیں وہیں علاقہ کے بالخصوص مسلم طبقہ کے لئے بھی ان کی کامیابی باعث فخر بنی ہوئی ہے اور متعدد والدین ایسے ہیں جو اب اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے حوصلہ افزا ہو رہے ہیں۔

ارم فاطمہ مظفرنگر شہر کے محلہ لدّا والا کی رہائشی ہیں۔ بھرپور توانا اور معصوم بچوں کی طرح چہکتی ارم زبردست خود اعتماد نظر آتی ہیں اور ان سے جو بھی پوچھا جاتا ہے اس کا زندہ دلی سے جواب دیتی ہیں۔ ان کی اس کامیابی کے بعد گھر پر لوگوں کا تانتا لگا ہوا ہے۔ ان کے والدین آنے والے مہمانوں کو گرم جوشی سے ارم کی کامیابی کے قصے سنا رہے ہیں۔


اہل خانہ ساتھ ارم فاطمہ / تصویر قومی آواز
اہل خانہ ساتھ ارم فاطمہ / تصویر قومی آواز

ارم کی عمر ابھی محض 18 سال ہے اور سی سی ایس یونیورسٹی میں زیر تعلیم سینکڑوں کالجوں کے ہزاروں طالب علموں میں وہ سر فہرست رہی ہیں۔ ارم کے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ایس سی وارشنیہ کہتے ہیں کہ ارم کی کامیابی میں ان کے کالج کی بہترین تعلیم کا ہاتھ ہے۔

جب ارم سے ان کی کامیابی کا راز دریافت کیا جاتا ہے تو وہ صرف مسکرا کر رہ جاتی ہیں جبکہ ان کی امی وہاں رکھی الماری کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جو کہ انعامات سے بھری پڑی ہے۔ ارم کے ابو جوکہ چرتھاول میں ولج ڈیولپمنٹ آفیسر (وی ڈی او) کے عہدے پر فائز ہیں، وہ کہتے ہیں، ’’میری بچی درجہ اول سے اب تک ہمیشہ ٹاپر رہی ہے اور ہائی اسکول میں تو ضلع کی سر فہرست پانچ بچوں میں شامل تھی۔‘‘

ایس ڈی کالج میں ارم فاطمہ کو انعام سے نوازتے پرنسپل
ایس ڈی کالج میں ارم فاطمہ کو انعام سے نوازتے پرنسپل

ارم کی بڑی بہن عظمیٰ بھی یوں تو کافی ہونہار طالبہ ہے، تاہم وہ ارم جیسی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ انس کہتےہیں،’’ہم اگر کلاس ٹاپ کر دیں تو خوش ہو جاتے ہی، اس نے تو پوری یونیورسٹی ٹاپ کر دی ہے۔‘‘

ارم فاطمہ کو بی اے میں 79 فیصد نمبرات حاصل ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ہندی، جغرافیہ اور آرٹ کے سبجیکٹ تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بارہویں کلاس میں ارم نے انگریزی میں 94 فیصد نمبرات حاصل کیے تھے، بی اے میں انہوں نے جغرافیہ کا انتخاب کیا اور اس میں بھی ٹاپ کیا۔ ارم کا کہنا ہے کہ ’’انگریزی مجھے بولنے میں اچھی لگتی ہے، ہندی پڑھنے میں اور جغرافیہ سبجیکٹ مجھے بہت دلچسپ لگتا ہے اس لئے میں نے جغرافیہ کا انتخاب کیا۔


ارم اپنے تین بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہے۔ ان کی کامیابی کو بالخصوص مسلم طبقہ میں مثبت نظریہ سے لیا گیا ہے۔ مقامی نوجوان فرمان عباسی نے کہا، ’’یونیورسٹی ٹاپ کرنا معمولی بات نہیں ہے اور یہ مزید غیر معمولی اس وقت ہو جاتا ہے جب سی سی ایس یونیورسٹی میں زیر تعلیم کل بچوں میں مسلم بچوں کی نمائندگی محض 5 فیصد ہو۔ یقینی طور پر ارم کی کامیابی سے لڑکیوں میں پڑھائی کا رجحان پیدا ہوگا۔‘‘

ارم فاطمہ جس محلہ لدّا والا کی رہائشی ہیں وہاں کی بہت کم لڑکیاں ایسی ہیں جو اسکول جاتی ہیں۔ کالج میں یہ تعداد اور بھی کم ہو جاتی ہے۔ یہاں کی رہائشی شہناز نے کہا، ’’ارم کے بارے میں اخبار میں خبر شائع ہونے کے بعد میں نے اپنے شوہر کو اخبار دکھایا۔ وہ ہماری بیٹی کو آگے پڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔ مسلمانوں کا رخ اب تعلیم کی طرف ہو رہا ہے اور ارم کی کامیابی کے بعد اس میں اور تیزی آئے گی۔‘‘


ارم فطرتاً حاضر جواب ہے اور انہوں نے ابتدائی تعلیم معروف شاعر نواز دیوبندی کے ’عظمت خان گرلز اسکول‘ سے حاصل کی ہے۔ یہاں بھی انہوں نے ہمیشہ ٹاپ کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ارم سول سروسز میں نہیں جانا چاہتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آج کل افسران سیاسی رہنماؤں کے اشاروں پر چلتے ہیں لہذا اب ان کی وہ ساکھ نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ ارم اب پروفیسر بننے کی خواہش مند ہیں۔

ارم کہتی ہیں کہ ان کی کامیابی کی وجہ اللہ ہے۔ وہ کہتی ہیں،’’اللہ پر یقین اور نماز نے میرا دھیان ادھر ادھر بھٹنکنے سے روکا۔ عبادت کی وجہ سے تعلیم کی جانب پوری طرح متوجہ ہو سکی۔‘‘

مظفر نگر کے سماجی کارکن اسد پاشا کے مطابق ارم کی کامیابی سے سماج کو کافی خوشی ہوئی ہے اور مسلم لڑکیاں یقیناً اس سے حوصلہ افزا ہوں گی۔

تیس ستمبر کو سی سی ایس یونیورسٹی میں تقسیم اسناد تقریب کے دوران ارم کو وائس چانسلر کی طرف سے طلائی تمغہ اور سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔ جبکہ وہاں سے واپس لوٹ کر آنے کے بعد ان کے کالج کی طرف سے انہیں 5100 روپے بطور انعام فراہم کیے گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 09 Oct 2019, 6:34 PM