نئی نسل:تعلیم کے ساتھ معقول طرزِفکرکاحامل ہوناضروری!

تعلیم حاصل کرتے ہوئے بچے (گیٹی امیج)
تعلیم حاصل کرتے ہوئے بچے (گیٹی امیج)
user

مولانا اسرارالحق قاسمی

علم معاشرے میں انسان کی شناخت اور تشخص کی بہتری کاہی سبب نہیں ہے،بلکہ اس سے بڑھ کرعلم کے ذریعے انسان کی فکری تربیت اور ذہنی پرورش ہوتی ہے جس کے نتائج وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں بھی دیکھتاہے اور اپنے شب و روز کے اعمال و افعال میں بھی۔عام طورپرعلم چاہے وہ دینی ہو یا آج کل کی اصطلاح میں عصری اور دنیوی ،اس کے بارے میں عام تصوریہ ہے کہ انسان چند نصابی کتابوں کو پڑھ لے اور پھر عملی دنیامیں مصروف ہو جائے ، حالاں کہ حقیقی تعلیم محض چند مضامین کی تدریس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تربیت اس کا ناگزیر حصہ ہے۔ایسی تعلیم،جوبہترین تربیت کے ساتھ حاصل کی جائے، نہ صرف انسان کے دل کی آنکھیں کھول دیتی ہے،بلکہ انسانی شخصیت میں حقیقی نکھار بھی پیدا کرتی ہے۔فرد،خاندان،قوم اور ملک کی کامیابی کے لئے یہی تعلیم حقیقت میں نفع بخش ہے۔یہ انسان کے خیالات اور طبیعت کے سلجھاؤ،اس کے ارادوں،اس کے اندرمدلل اور مؤثر انداز گفتگو اور اس کے طرزِ فکر میں وسعت و گہرائی اور مثبت تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ تعلیم کے ذریعہ انسانی شخصیت کی ہمہ جہتی نشوونما ہوتی ہے اوراس نشوونماکااہم پہلو ہے انسان کے سوچنے سمجھنے،غوروفکرکرنے،رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے میں اعتدال پسندی، فیصلہ کرنے سے پہلے مسئلہ کے جملہ مثبت اور منفی پہلوؤں کاگہرائی کے ساتھ مطالعہ،فریق ثانی کی بات سننے کا حوصلہ،سوچنے کے اسی طریقے کو معروضی،معقول یا سائنٹفک طرزِ فکر کہاجاتاہے اور سائنٹفک طرز فکر کی نشوو نماصرف سائنسی کتب یا سائنسی مضامین کے مطالعے سے حاصل نہیں ہوتی ہے،بلکہ یہ طرز فکر پیدا ہوتا ہے صحیح انداز کی تعلیم و تدریس اور تربیت سے،اچھی انسانی صحبت سے،مختلف علوم کی کتابوں کے غیر جانب دارانہ مطالعے سے۔اس طرزفکرمیں غیر جانبداری،اعتدال پسندی،اپنے نقطۂ نظرکو دوسروں پرزبردستی تھوپنے سے گریز، جسمانی،مالی اور افرادی طاقت پر غرور،اس کے اظہار اورغلط استعمال سے اجتناب،دوسروں کی بات کو سننے اور سمجھنے کی ہمت و عادت،سوجھ بوجھ، دور اندیشی،عملی بصیرت اور عواقب و نتائج کا ادراک شامل ہیں۔اس میں کوتاہ اندیشی،گھبراہٹ،ہٹ دھرمی،تنگ نظری،ذراسی بات پر برافروختہ ہوکر کوئی قدم اٹھانا،واقعات کو توڑمروڑ کر کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش جیسی منفی صفات کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان محض اپنے نقطۂ نظر اوراپنی رائے پر اڑانہ رہے،صرف اپنی ہی بات نہ کہے بلکہ دوسروں کی بات بھی سنے،اس کے اچھے اور مثبت پہلوؤں کو پہچانے تب کسی نتیجہ پر پہنچ کر کوئی قدم اٹھائے۔اس طرزِ فکر کے پروان چڑھنے میں درسی مضامین کے ساتھ غیر درسی پروگراموں اور کھیلوں کابھی دخل ہے۔

انسان کی شخصیت میں سائنٹفک طرزفکرکا ارتقاء انسانی شخصیت کے مجموعی ارتقاء ہی کاایک حصہ ہے،جہاں ایک طرف اس کا گہراتعلق تعلیم وتربیت سے ہے وہیں دوسری طرف بہترسماجی ماحول،گھر اور پڑوس،گھریلواور خاندانی روایات،حلقۂ احباب وغیرہ سے بھی ہے جن سے اس کارات دن سابقہ پڑتا ہے۔ یہی چیزیں انسان کی سوچ میں مثبت اور غیر جانبدارانہ انداز پیدا کرتی ہیں۔انہیں سے فرد میں اعتدال پسندی،استدلال میں معقولیت،افہام و تفہیم کا جذبہ،افراد اور واقعات میں مثبت پہلو تلاش کرنے کی عادت،صحت مند تنقید کا مزاج،اختلافی مسائل میں دوسروں کی بات سننے اور دوسروں کے نقطۂ نظر کوسمجھنے کی عادت،احساس ذمہ داری،مؤثر اور باوقارانداز گفتگو،اپنی بات کو دلیل کے ساتھ ثابت کرنے کی عادتیں پیداہوتی ہیں۔یہی تعلیم کا اعلیٰ ترین مقصد ہے اور اسی میں قوموں کی ترقی کا رازپوشیدہ ہے،جس ملک اور سماج میں ایسے افرادبہ کثرت ہوں گے،وہ سماج زیادہ پرسکون،امن پسند،کم سے کم اختلاف کے ساتھ جیواور جینے دوکے اصولوں پر عمل کرنے والا سماج ہوگا،وہاں بھی اختلافات ہوں گے اس لئے کہ اختلاف رائے انسانی زندگی میں ناگزیر ہے،لیکن ان اختلافات کو وہ اپنے اعلیٰ اور مثبت طرز فکر کی وجہ سے تخریب کا باعث نہیں بننے دیں گے۔بلکہ ان میں سے بھی تعمیر کا پہلو نکال لیں گے۔اس طرح کے طرز فکر کوپیدا کرنے میں اہم ترین کردار سمجھدار ماں باپ،پھر تربیت یافتہ استاذ،پھرپورے سماج اور قومی وسائل کا ہوتاہے۔

اب ہمیں یہ دیکھناچاہئے کہ ہم اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر کس قدر توجہ دے رہے ہیں اوران کے سوچنے سمجھنے کی کس قسم کی صلاحیت کوپروان چڑھا رہے ہیں۔جوموجودہ صورت حال ہے اس کا اگر انصاف پسندی کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو یہ دیکھ کر افسوس ہی ہوتاہے کہ اگرچہ نئی نسل بتدریج تعلیم کے میدان میں آگے آرہی ہے اور نوجوانوں میں تعلیم کا گراف پہلے کے مقابلے میں بڑھ رہاہے،مگر اس تعلیم کا جونتیجہ خود اس نسل پر اوراس کے واسطے سے معاشرے اور ملک پرمرتب ہونا چاہئے تھا وہ سامنے نہیں آرہا۔ہمارے نوجوانوں میں عام طورپرسوچنے اور سمجھنے کا وہ ا نداز نہیں پایاجاتا جسے معقولیت پر مبنی ، مثبت یا سائنٹفک کہاجاسکتا ہو،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی بعض ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جن کی ان سے توقع نہیں کی جاتی۔ جب ان کی طرف سے ایسے اعمال کاصدور ہوتاہے تولوگوں کوحیرت ہوتی ہے کہ ایسا تعلیم یافتہ اور قابل فاضل شخص ایسی حرکت کیسے کرسکتاہے۔وہ اس لئے کہ عموماً لوگوں کا ذہن یہ بنایاہوا ہے کہ جو شخص تعلیم یافتہ ہوگا اس کی سوچ بہت بلند ہوگی اوروہ کسی بھی عمل کے انجام پر بھر پور نظر رکھتے ہوئے اسے انجام دے گا،لیکن چوں کہ آج کے تعلیمی مراکز،اسی طرح خود والدین اور خاندان کے ذمے داران و سرپرستان اپنے بچوں کی تربیت پر ویسی توجہ نہیں دیتے جیسی دینی چاہئے،اس لئے بعض نوجوان بڑی سے بڑی ڈگری حاصل کرلینے اور اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری یا غیر سرکاری منصب پر پہنچ جانے کے باوجود ذہنی اور فکری اعتبار سے نہایت کورے اورنابالغ ہوتے ہیں۔ہندوستان دنیاکا واحد ایسا ملک ہے جہاں کی آبادی کا کم ازکم ساٹھ فیصدحصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے،ایسے میں اگر ہم اپنے نوجوانوں اور ملک و قوم کی تقدیر کو سنبھالنے والی نئی پیڑھی کی درست ذہنی و فکری تربیت پر دھیان نہیں دیتے تو پھر ہمیں آنے والے دنوں میں موجودہ حالات سے بھی زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ایسانہیں ہے کہ ہندوستانی نوجوانوں کی کل آبادی غیر منطقی اور غیر سائنٹفک طرزِ فکر کی شکار ہے، بے شمار ایسے نوجوان ہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ نہایت بہتر دماغی و ذہنی صلاحیتوں سے بھی لیس ہیں،ان کی سوچ میں بے شمار خوبیاں پائی جاتی ہیں اور وہ ہر وقت اپنے اور اپنے ملک و قوم کی بہتری و ترقی کے لئے کچھ نہ کچھ کررہے ہیں،مگر عام طورپر ایسا نہیں ہے۔عام طورپرجو کیفیت ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان اپنے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کے ہونے کے باوجود بعض نہایت بودے اور بیہودہ خارجی اثرات کو قبول کررہے ہیں اوراس کے نتیجے میں سماج اور معاشرے کو ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔

سوچ میں معقولیت اور منطقی طرز فکرکی ضرورت زندگی اور عمل کے ہر شعبے میں ہے اور اس ضرورت کو محسوس کرنا ہوگا۔چاہے ہمارے دنیوی معاملات ہوں یا مذہبی اعمال و معاملات ہر شعبے میں سوچنے اور سمجھنے کا وہی انداز اختیار کرنا چاہئے جو ہمارے لئے اور ہمارے گرد و پیش کے لئے خیر اور بھلائی کا باعث ہو۔ نرے جذبات سے عموماً حالات خراب ہوتے ہیں اور پھراس کا نقصان کبھی شدید اور کبھی شدید ترین بھی ہوتاہے۔مثال کے طورپرآج کل جو ہمارے ملک میں سیاسی مقاصد کے تحت بے دردی سے مذہب کا استعمال ہورہاہے اس کی لپیٹ میں عموماً ملک کے نوجوان ہی آرہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ یہ نوجوان سب کے سب بالکل جاہل اور علم سے بے بہرہ ہیں،آپ سوشل میڈیااور انٹرنیٹ پر موجود سماجی رابطہ کی دیگر سائٹس پر جاکردیکھئے تواندازہ ہوگا کہ کیسے کیسے پڑھے لکھے اور اعلیٰ سے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بھی سیاسی بھیڑیوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔وہ خود اپنے یافریقِ مقابل کے مذہب اور مذہبی تعلیمات کو پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ سیاسی لیڈروں یا بعض سرپھرے مذہبی رہنماؤں کے کہنے میں آکر نہایت گھناؤنی حرکتیں کررہے ہیں اور قتل و غارت گری تک کو معمول بناتے جارہے ہیں،حالاں کہ نتیجے میں عام طورپر انھیں کوئی فائدہ بھی نہیں حاصل ہورہاہے ،بلکہ الٹابعض دفعہ سخت سزائیں بھی جھیلنی پڑتی ہیں۔آخر یہ نوجوان اتنی آسانی سے کیسے استعمال ہورہے ہیں،اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ بے چارے پڑھے لکھے توہیں مگر ان کے طرزفکر میں کسی قسم کی پختگی اور حالات کو صحیح رخ پرسمجھنے کی قوت و صلاحیت نہیں ہے اوراس کے مجرم یہ نوجوان نہیں،بلکہ وہ تعلیم گاہیں ہیں جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے اور وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی تربیت اور نشوونما میں حصہ لیاہے۔

  • مضمون نگار ممبرپارلیمنٹ اور آل انڈیاتعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے صدرہیں

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔