اے ایم یو کے تینوں مراکز مودی حکومت کی بے توجہی کا شکار

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کشن گنج (بہار) میں واقع مرکز کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن کیرالہ کے ملپورم اور مغربی بنگال کے مرشد آباد کے مراکز کی حالت بھی بہتر نہیں کہی جا سکتی

قومی آواز گرافکس
قومی آواز گرافکس
user

آس محمد کیف

علی گڑھ: ملک کے مایہ ناز تعلیمی اداروں میں سے ایک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام کو 100 سال مکمل ہونے جا رہا ہے۔ اس عرصے میں اے ایم یو کیمپس نے تو بہت ترقی کی لیکن اس کے تین مراکز کسم پرسی کا شکار ہیں اور بند ہونے کی دہانے تک پہنچ گئے ہیں۔

اے ایم یو کے مراکز کو خاطر خواہ فنڈز کی فراہمی نہیں ہو پا رہی ہے جس کی وجہ سے اس کے انتظامات میں رکاوٹ آ رہی ہے اور کئی کورسز کو بند کر دینا پڑا ہے۔ اے ایم یو کے مراکز کی اس بد حالی کا ذمہ دار مرکزی حکومت کی سرد مہری کو قرار دیا جاتا ہے۔ اے ایم یو کے کشن گنج، بہار میں واقع مرکز کی حالت زار تو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، کیرالہ کے ملپورم اور مغربی بنگال کے مرشد آباد کے مرکز کی حالت بھی خاص بہتر نہیں ہے۔

حال ہی میں اس مسئلے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا یونین کے صدر سلمان امتیاز نے کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان سے ملاقات کی اور انہیں صورت حال سے آگاہ کرایا۔ یونیورسٹی کے پروفیسر شافع قدوائی بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اے ایم یو کے مراکز اس وقت فنڈ کی کمی کے شکار ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’کہاں تو پانچ مراکز قائم کر کے علم کی روشنی پھیلانے کا خواب دیکھا گیا تھا اور کہاں اب موجودہ تین مراکز بھی اپنی شمع کو روشن بنائے رکھنے کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں۔

مرشد آباد کا مرکز
مرشد آباد کا مرکز

کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان سے ملاقات کر کے ملپورم سنٹر کے لئے آواز اٹھانے والے سلمان امتیاز نے کہا، ’’یہ بات درست ہے کہ کشن کے گنج مرکز تمام تر پریشانیوں سے دو چار ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اے ایم یو کے دوسرے مراکز کی حالت بہترین ہے۔ تاہم ملپورم کی دقتیں کچھ مختلف ہیں۔ مثلاً یہاں فنڈ کی بہت زیادہ کمی ہے اور اسی فنڈ کو واگزار کرنے کی خاطر ہم نے گورنر سے ملاقات کی تھی اور انہوں نے وعدہ بھی کیا ہے۔ عارف محمد خود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں، لہذا وہ ہمارے درد کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سنہ 2010 میں کیرالہ کے ملپورم میں 336 ایکڑ اراضی میں قائم اس سنٹر میں 300 کے قریب طلباء زیر تعلیم ہیں۔ اپنے قیام سے ہی یہاں بی ایس، ایم بی اے اور ایل ایل بی کی تعلیم دی جا رہی ہے لیکن آج 9 سال بعد بھی کوئی نیا کورس شروع نہیں کیا گیا ہے۔ اب فنڈ واگزار نہ ہونے کی پریشانی ہے، لہذا کسی بھی طرح کے نئے کورس کو شروع کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ دراصل مرکزی حکومت کی جانب سے یونیورسٹی کو فنڈز کی فراہمی نہیں ہو پا رہ ہے، یہی وجہ ہے کہ یونورسٹی مراکز کو فنڈ بھیجنے سے قاصر ہے۔ سلمان کا کہنا ہے کہ ’’کشن گنج مرکز کی حالت بدترین ہےجبکہ مرشد آباد میں بھی نسبتا کوئی پیشرفت نظر نہیں آ رہی ہے۔‘‘

ملپورم کا مرکز
ملپورم کا مرکز

بی جے پی حکومت جب سے مرکز کے اقتدار پر قابض ہوئی ہے اے ایم یو مستقل زیر بحث ہے، سلمان کے مطابق، ’’حکومت کی بے توجہی سے محسوس ہوتا ہے کہ مراکز بند ہو جائیں یہی اس کی منشا ہے۔‘‘


دراصل سال 2016 میں انسانی وسائل کے وزیر نے ان مراکز کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور دھمکی دی تھی کہ ان کی مالی امداد بند کردی جائے گی۔ اے ایم یو کے سابق طالب علم فاروق میواتی کے مطابق، راجیہ سبھا کے رکن اسمبلی جاوید علی خان نے اس معاملے کو راجیہ سبھا میں زور شور سے اٹھایا تھا اور اس پر کافی ہنگامہ بھی ہوا تھا۔

غورطلب ہے کہ یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل اور ایگزیکٹو کمیٹی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت کیمپس کے باہر پانچ مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا جن میں سے 3 کو شروع کر دیا گیا۔ کشن گنج والا مرکز کرایہ کی عمارت میں چل رہا ہے اور اس کی 100 ایکڑ اراضی دریائے مہانندا کے سیلاب میں ڈوب جاتی ہے۔ یہاں ایک سو پچاس سے بھی کم طلبا زیر تعلیم ہیں جو اکثر سہولیات کی کمی کی شکایت کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں کشن گنج مرکز کے بی ایڈ کورس کی منظوری بھی ختم کر دی گئی۔

کشن گنج کا مرکز
کشن گنج کا مرکز

ظفر منصوری علیگ کہتے ہیں، ’’یہ سب حکومت کی سوچی سمجھی حکمت عملی نظر آتی ہے لیکن سوال اس سے قبل کی حکومتوں سے بھی ہیں۔ دراصل 2006 میں سچر کمیٹی کے مشورے پر اے ایم یو کے مراکز قائم کئے گئے تھے۔ 2008 میں اے ایم یو کے اس وقت کے وائس چانسلر پی کے عبد العزیز نے بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کو زمین فراہم کرنے کے لئے خط لکھا اور وہ خط دو سال میں بہار پہنچ سکا! تین سال میں زمین تلاش کی گئی اور 2013 میں بہار حکومت کے اقلیتی ہاسٹل کے دو کمروں میں اسٹڈی سینٹر قائم کیا گيا۔ اس کی بنیاد 2014 میں سونیا گاندھی نے رکھی تھی لیکن عمارت آج تک تعمیر نہیں ہو سکی۔ اب یہاں صرف دو سبجیکٹ یہ پڑھائے جاتے ہیں۔‘‘

سلمان امتیاز کا کہنا ہے ’’ہم نے بہار کے گورنر اور وزیر اعلی سے ملاقات کے لئے درخواست پیش کی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لئے لڑیں ورنہ یہ مراکز اپنا وجود کھو دیں گے۔‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
اے ایم یو علی گڑھ

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 31 Oct 2019, 6:48 PM