عمران خان کو سزا : پی ٹی آئی کی حریف جماعتیں کیا کہتی ہیں؟

آٹھ فروری کو الیکشن ہو رہے ہیں پورے ملک میں ایک بے حسی کی سی فضا طاری ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت نے قوم کے مزاحمتی ردعمل کی طاقت کو کمزور کر دیا ہے۔

عمران خان کو سزا : پی ٹی آئی کی حریف جماعتیں کیا کہتی ہیں؟عمران خان کو سزا : پی ٹی آئی کی حریف جماعتیں کیا کہتی ہیں؟
عمران خان کو سزا : پی ٹی آئی کی حریف جماعتیں کیا کہتی ہیں؟عمران خان کو سزا : پی ٹی آئی کی حریف جماعتیں کیا کہتی ہیں؟
user

Dw

عمران خان اور ان کی اہلیہ کو سنائی جانے والی عدالتی سزاؤں پر ان کی مخالف جماعتوں نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے جبکہ ملک کی دو بڑی جماعتوں نے اس عدالتی عمل پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے درست اقدام قرار دیا ہے۔پاکستان میں سیاست دانوں کو عدالتی سزائیں سنانے کی روایت پرانی ہے ۔ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ، سید یوسف رضا گیلانی اور میاں محمد نواز شریف سمیت کئی سیاست دانوں کو عدالت کی طرف سے سزائیں سنائی گئی ہیں۔ ان میں سے کئی مقدمات میں سنائی جانے والی سزاؤں کے خلاف قانونی حلقے سوال بھی اٹھاتے رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما طلال چوہدری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے خلاف سائفر اور توشہ خانہ کے مقدمات '' اوپن اینڈ شٹ‘‘ کیسز تھے۔ ان کے بقول یہ سزائیں پہلے ہی سنا دینی چایئں تھیں لیکن 'عدالتی سہولت کاری‘ کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی ۔''عمران خان کو کئی درجن ضمانتیں ملیں، ان کے ٹرائل کالعدم قرار دیے گئے، وہ اپنی مرضی کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے تھے۔ عمران خان نے توشہ خانہ سے مہنگے تحائف لے کر ان کی مالیت کم ظاہر کی، انہیں اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا اور انہیں مہنگے داموں بیچ کر غیر قانونی منافع کمایا۔ توشہ خانہ کیس میں اس صورتحال میں یہی فیصلہ بنتا تھا۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اب عمران خان ظلم کا بیانیہ بنا کر اور ہمدردی کے پردے میں چھپ کر اپنا جرم چھپا نہیں سکتے۔ یہ فیصلے ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔


بانی پی ٹی آئی عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بیگم اور پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کی سزا پر پیپلز پارٹی نے بھی سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا کا کہنا تھا کہ یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ سابق وزیراعظم، ان کی اہلیہ اور سابق وزیر خارجہ سیاسی قیدی نہیں ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی ہاتھ نہیں۔ ان کے بقول ان تینوں شخصیات پر سیاسی نہیں بلکہ دیگر الزامات ہیں۔

شہلا رضا کے بقول تحریک انصاف کے پارٹی الیکشن کی وجہ سے جسٹس وجہیہ اور اکبر ایس بابر ان سے الگ ہوئے اور پارٹی الیکشن میں آئینی خلاف ورزیوں پر اکبر ایس بابر عدالت گئے۔''پنکی پیرنی اور فرح گوگی کے کرپشن معاملات سب کے سامنے ہیں۔ پانچ قیراط کا ہیرا آسانی سے ہضم نہیں ہوگا۔‘‘


استحکام پاکستان پارٹی کے ترجمان اور پنجاب کے سابق وزیر فیض الحسن چوہان سے جب ہم نے رابطہ کرکے دریافت کیا کہ ان سزاؤں پر ان کی جماعت کا کیا موقف ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے جسے عدالت نے قانونی اور سیاسی حقائق کو سامنے رکھ کر سنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگ سائفر کیس میں عمران خان کے لیے سزائے موت کی توقع کر رہے تھے اور عمران خان کی بہنیں بھی اس طرح کا واویلا کر رہی تھیں لیکن اس عدالتی فیصلے نے کوئی نیا بھٹو پیدا نہ کرکے ملک کو مزید تقسیم ہونے سے بچا لیا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور ان عمران خان کو جس طریقے سے سزائیں دی جا رہی ہیں کیا سیاست دانوں کے خلاف اس رجحان کو رکنا نہیں چاہیے؟ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جو جرم کیے اور جس طرح ملک کو نقصان پہنچایا اس پر کیا عدالتیں ان کو چھوڑ دیتیں، معاف کر دیتیں، اکیس توپوں کی سلامی دیتی یا ان کو ہار پہناتی۔‘‘

فیض الحسن چوہان کے بقول اس فیصلے کے پاکستان پر اثرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں کوئی بھی اس فیصلے کے خلاف باہر نہیں نکلا۔ عمران خان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ریاست سے نہیں ٹکرایا جا سکتا، ریاست سے ٹکرانے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ عمران کو معافی کیسے مل سکتی تھی۔


جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ہم سب کو اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ حالات بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ ان کے مطابق سیاست دانوں کو عدالت کے ذریعے سزائیں سنانے کی پاکستان میں تاریخ پرانی ہے اس طرح کے اقدامات سے ملک میں استحکام نہیں آ سکتا اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بہت تلخی پیدا ہو چُکی ہے، مذاکرات کے دروازے بند ہیں، سیاست دان چھوٹے مفادات کے لیے باہم دست و گریباں ہیں۔ اس صورتحال کا فائدہ اسٹیبلشمنٹ اٹھا رہی ہے۔‘‘

''آٹھ فروری کو الیکشن ہو رہے ہیں پورے ملک میں ایک بے حسی کی سی فضا طاری ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت نے قوم کے مزاحمتی ردعمل کی طاقت کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو اندیشہ ہے کہ کل کو کوئی اور جماعت اس طرح کے فیصلوں کا نشانہ بنے گی۔ ہونا یہ چاہیے کہ تمام جماعتوں کے سربراہ مل کر بیٹھیں اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔