یورپی باشندوں کے صرف دس فیصد لوگوں کا ماننا کہ یوکرین روس کو شکست دے سکتا ہے، سروے

سروے جرمن دارالحکومت برلن میں قائم تھنک ٹینگ 'دی یورپین کونسل آف فارن ریلیشنز' نے کرایا ہے، جس میں 20 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ انہیں روس کی فتح کی توقع ہے۔

یورپی باشندوں کی اکثریت روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی فتح سے مایوس، سروے
یورپی باشندوں کی اکثریت روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی فتح سے مایوس، سروے
user

Dw

ایک حالیہ سروے میں دس فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ یوکرین اب بھی روس کو شکست دے سکتا ہے، جبکہ بیس فیصد کا خیال اس کے برعکس تھا۔یورپی یونین میں شامل ممالک میں کیے گئے ایک حالیہ سروے میں دس فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا ان کو اب بھی یقین ہے کہ روس اور یوکرین کے مابین گزشتہ دو سال سے جاری جنگ میں یوکرین روس کو شکست دے سکتا ہے۔

یہ سروے جرمن دارالحکومت برلن میں قائم تھنک ٹینگ 'دی یورپین کونسل آف فارن ریلیشنز' نے کرایا ہے، جس میں 20 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ انہیں روس کی فتح کی توقع ہے۔ اس سروے میں 37 فیصد جواب دہندگان کا ماننا تھا کہ اس جنگ کا خاتمہ مذاکرات کے ذریعے ہوگا، تاہم اس دوران یوکرینی حکومت اپنے ملک کا ایک بڑا حصہ کھو دے گی۔


اس وقت روس یوکرین کے تقریبا بیس فیصد حصے پر قابض ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یوکرین کے کئی اور علاقوں کو روس کا حصہ قرار دے چکا ہے۔ اس حالیہ سروے کے 41 فیصد۔، یعنی نصف سے بھی کم شرکاء کی رائے میں یورپ کو یوکرین پر روس کے ساتھ مذاکرات کے لیے زور دینا چاہیے۔ اس سروے میں جرمنی فرانس، پولینڈ اور سویڈن سمیت 12 یورپی ممالک کے 17,000 سے زائد بالغ باشندوں نے حصہ لیا۔

یوکرین تقریباً دو سال سے روس کے خلاف اپنا دفاع کر رہا ہے اور اب جب کے مغربی سپورٹ رُک گیا ہے، کییف کو میدان جنگ میں مشکل کا سامنا ہے۔ اس دوران امریکہ میں ایک سیاسی تنازعے کے باعث واشنگٹن کی جانب سے یوکرین کے لیے ایک مالی امددای پیکج کے حوالے سے بھی ہفتوں سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔


دریں اثناء جرمن حکومت نے بھی ابھی تک یوکرین کو ٹاورس کروز میزائل فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے، جبکہ کییف اس میزائل کا بارہا مطالبہ کر چکا ہے۔ ECFR کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ،''ولادیمیر پوتن مغرب کی جنگی تھکاوٹ پر انحصار کیے ہوئے یوکرین کے ساتھ جنگ میں روس کی فتح کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔