تباہ حال پاکستانی معیشت کی ’گہری سرجری‘ ضروری، شہباز شریف

پاکستان کی معیشت کا انحصار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرضوں پر ہے مگر ساتھ ہی ریاست کو اس مالیاتی ادارے کے بہت بڑے قرضے بھی واپس کرنا ہیں۔

تباہ حال پاکستانی معیشت کی ’گہری سرجری‘ ضروری، شہباز شریف
تباہ حال پاکستانی معیشت کی ’گہری سرجری‘ ضروری، شہباز شریف
user

Dw

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ تباہ حال ملکی معیشت کی ’گہری سرجری‘ ضروری ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق نئی حکومت کی ذمے داری پاکستان کو بیرونی قرضوں کے بےتحاشا بوجھ، شدید مہنگائی اور روپے کی گرتی قدر سے نکالنا ہے۔اسلام آباد سے منگل 12 مارچ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق نئے وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے ارکان کے حوالے کی گئی وزارتوں کا اعلان کرتے ہوئے انہیں وہ بڑی ذمے داریان سونپ دیں، جن کا مقصد ملک کو درپیش کئی طرح کے بحرانی حالات کا تدارک ہے۔

آٹھ فروری کے قومی انتخابات کے بعد قائم ہونے والی مخلوط حکومت کی کابینہ کے 19 ارکان نے کل پیر 11 مارچ کو اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا تھا۔ اس حلف برداری کے بعد ہونے والے وفاقی کابینہ کے اولین اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ان وزراء کو احساس دلایا کہ ملک کو درپیش اقتصادی اور مالیاتی بحرانوں سے نکلانے کے لیے ان پر کتنی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔


نئے وزیر خزانہ

پاکستان کی نئی کابینہ میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو بنایا گیا ہے۔ وہ ایک بڑے غیر سرکاری بینک کے سربراہ ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی معاملات سے بخوبی آشنا ہیں۔ محمد اورنگزیب ماضی میں شہباز شریف کے وفادار افراد کے ایک گروپ سے تعلق رکھنے والے واحد ٹیکنوکریٹ ہیں۔

دوسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے شہباز شریف ایک نازک حکومتی اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ان کی حکومت کو پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کی ایک طویل المدتی حریف سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ اس حکومت میں چند چھوٹی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔


اقتصادی مشکلات

پاکستان کی معیشت کا انحصار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرضوں پر ہے مگر ساتھ ہی ریاست کو اس مالیاتی ادارے کے بہت بڑے قرضے بھی واپس کرنا ہیں۔ اس کے لیے نئی حکومت کو ایک ایسے جامع اور مؤثر پروگرام کی ضرورت ہے، جو طویل المدتی مثبت اثرات کی وجہ بن سکے۔

شہباز شریف کا پیر کی شام اپنی کابینہ کی توجہ ملک کو درپیش سنگین معاشی بحران کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا تھا، ''ملکی مالیاتی معاملات سے نمٹنے کے لیے گہری سرجری کرنے کی ضرورت ہو گی۔ ہماری قوم کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے۔‘‘ نئی مخلوط حکومت میں شامل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے نئی کابینہ میں کوئی بھی وزارتی عہدہ لینے سے انکار کر دیا تھا تاہم یہ اسی حکومتی ڈیل کا نتیجہ تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک سربراہ اور سابق ملکی صدر آصف علی زرداری گزشتہ ویک اینڈ پر ایک بار پھر ملکی صدر منتخب کر لیے گئے۔


وزیر خارجہ اسحاق ڈار

نئی حکومت میں وزارت خارجہ 73 سالہ اسحاق ڈار کو سونپی گئی ہے۔ وہ ماضی میں نواز شریف اور شہباز شریف کی حکومتوں میں کئی مرتبہ وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور آئی ایم ایف کے بارے میں تنقیدی بیانات بھی دے چکے ہیں۔ ایک سرکردہ انٹرنیشنل سروے ریسرچ اینڈ کنسلٹنسی فرم گیلپ کی پاکستانی شاخ سے منسلک معروف تجزیہ کار بلال گیلانی اس بارے میں کہتے ہیں،''ایسا لگتا ہے کہ ان تمام سفید بالوں والے مردوں کو واپس لایا گیا ہے۔ یہ مایوسی کی بات ہے کہ حکومت، جسے نوجوانوں اور تبدیلی کے بارے میں بات کرنے والی پارٹی کی طرف سے زبردست مخالفت کا سامنا ہے، یہاں تک کہ کابینہ کی تشکیل تک میں کسی نئے چہرے کو لانے کی زحمت نہیں کر رہی۔ تو نئے تصورات کی بات تو آپ رہنے ہی دیں۔‘‘

مہنگائی سے تنگ آ چکے عوام

پاکستان میں مہنگائی 23 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ پانی، بجلی اور گیس کے نرخوں میں 36 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک ایسے وقت پر جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کل منگل 12 مارچ کو رمضان کا اسلامی مہینہ بھی شروع ہو گیا ہے، عوام کے لیے انہیں دستیاب مالی وسئال میں روزمرہ ضروریات کو پورا کرنا جوئے شیر لانا بن چکا ہے۔


ملک اور عوام کا نیا امتحان آئندہ ہفتوں میں دیکھنے میں آئے گا، جب پاکستان کو آئی ایم ایف کے ساتھ تین بلین ڈالر کے قرض کی نئی قسط پر بات چیت کرنا ہو گی۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی رہائشی ایک گھریلو ملازمہ زینب بی بی نے کہا، ''ہمیں رمضان کی خریداری کے لیے آخری لمحے تک بچت کرنا پڑی۔ تب ہی ہم بمشکل کچھ خرید سکے۔ دعا کریں کہ بس یہ رمضان ہمارے لیے آسانی سے گزر جائے۔‘‘

کابینہ میں خواتین کی تعداد

پاکستان میں نئی وفاقی کابینہ کے جن 19 ارکان کا اعلان کیا گیا ہے، ان میں سے ایک کے علاوہ باقی سب مرد ہیں۔ وزیر دفاع کی بھانجی شزہ فاطمہ خواجہ کو وزیر مملکت کا جونیئر عہدہ دیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ کے الیکشن میں 266 نشستوں میں سے صرف 12 خواتین براہ راست پارلیمان کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ مزید 60 نشستیں غیر منتخب خواتین ارکان پارلیمان کے لیے مختص تھیں۔


گزشتہ ماہ کے عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اور اس کے بانی عمران خان کے خلاف گٹھ جوڑ کی جو کوششیں بھٹو اور شریف خاندانوں کے سیاستدانوں نے کیں، یہ انہی کا نتیجہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے مل کر ابھی تک جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی اراکین پارلیمان کو اقتدار سے دور رکھا۔

لاہور کے شریف خاندان نے طویل عرصے تک پاکستان پر حکومت کی ہے۔ شہباز شریف، جو اب دوسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں، کے بڑے بھائی نواز شریف بھی ماضی میں تین بار پاکستانی وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف آئندہ مہینوں میں اپنی کابینہ میں توسیع کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔