نیتن یاہو کی ناکام حکمت عملی: جائزہ

سات اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل میں سب سے زیادہ سنائی دیا جانے والے جملہ ہے، ''شنوئی کونسیپسیا‘‘ یعنی ''تصور میں تبدیلی‘‘۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا تصور یہ رہا ہے کہ حماس کو موجود رہنا چاہیے تاکہ اس کی بنیاد پر فلسطینی ریاست قائم نہ ہو تاہم اس پالیسی میں کئی کمزوریاں ہیں، جن پر اب اسرائیل میں بحث جاری ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا تصور رہا ہے کہ فلسطینی عسکری تنظیم حماس موجود رہے تاکہ اس کو بنیاد بنا کر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام روکا جائے۔ تاہم حماس کی جانب سے سات اکتوبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اس تصور میں موجود خامیاں عیاں ہیں اور اب اسرائیل میں نیتن یاہو کی اس حکمت عملی پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

اسرائیلی فلسطینی تنازعے کا ذکر ہو تو وزیراعظم نیتین یاہو کا یہ تصور ضرور زیر بحث آتا ہے، جس کے تحت وہ چیزوں کو جوں کا توں رہنے دینا چاہتے ہیں۔ دو ہزار نو میں اپنی ایک تقریر میں نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام پر اصولی رضامندی ظاہر کی تھی، تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کے اقدامات سے واضح رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے داخلی جھگڑے کو ہوا دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ حماس اور فلسیطنی لبریشن اتھارٹی آپس میں لڑتے رہیں، چاہے اس کی قیمت حماس کو باقی رکھنے ہی کی صورت میں کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔


انتہائی دائیں بازو کی ایک قدامت پسند ویب سائٹ میدا کے مطابق نیتن یاہو نے اپنی جماعت لکود پارٹی کو سن 2019 میں کہا کہ حماس کے لیے قطری سرمائے کی فراہمی جاری رہنا چاہیے کیوں کہ یہ فلسطینی ریاست کے قیام کو روکے رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا، ''یہ ہماری حکمت عملی کا حصہ ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان تقسیم موجود رہے۔‘‘ مگر حالیہ برسوں میں اسرائیلی معاشرے کی بڑی تعداد اسرائیلی وزیراعظم کے اس خیال کے ساتھ ہی نظر آرہی تھی مگر سات اکتوبر کے بعد حالات یک سر تبدیل ہو چکے ہیں۔

مختلف حل درکار

سات اکتوبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اسرائیل میں سب سے زیادہ سنائی دیا جانے والے جملہ ہے، ''شنوئی کونسیپسیا‘‘ یعنی ''تصور میں تبدیلی‘‘۔ اب اسرائیلی عوام اس حملے سے قبل تک کے تصور سے بالکل جداگانہ راستے کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ نیتن یاہو اب تک ایسا کوئی حل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔


دوسری جانب امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ اسرائیلی معاشرے کا ایک بڑا حصہ اس تنازعے کے کسی ممکنہ حل ہی پر یقین کرنے سے عاری ہے۔

مختلف نتائج کے متقاضی

اسرائیل میں بائیں بازو اور لبرل طبقے کے مطابق ملک میں انتخابات ہونا چاہیں اور نیتن یاہو کی انتہائی دائیں بازو کے عناصر پر مبنی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی حکومت میں شامل متعدد عناصر غزہ میں سن 2005 میں خالی کی جانے والی یہودی بستیوں کو دوبارہ سے بسانے کی خواہش کا اظہار کر رہے ہیں۔


گو کہ نتین یاہو بار بار کہتے نظر آئے ہیں کہ وہ غزہ میں اسرائیلی بستیوں کے قیام کا ارادہ نہیں رکھتے، مگر ان کی حکومت میں شامل قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر مختلف ٹی وی چینلز پر یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ غزہ سے فلسطنیوں کو 'رضاکارانہ طور پر مہاجرت‘ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سے یہ بھی نظر آتا ہے کہ نیتن یاہو کا خود اپنی ہی حکومت پر کنٹرول ختم ہو چکا ہے۔ ماضی میں لکود پارٹی سمیت تقریباﹰ تمام جماعتیں انتہائی دائیں بازو کے عناصر کی سوچ پر تنقید کرتی رہی ہیں، تاہم نیتن یاہو نے اپنی سیاسی بقا اور حکومت سازی کے لیے بن گویر کی عوامی سطح پر حمایت کی۔

عوامی جائزے اور کٹر نظریات

لیکن اب عوامی جائزے بتا رہے ہیں کہ نیتن یاہو کی عوامی مقبولیت مسلسل گر رہی ہے، جب کہ بن گویر کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اتزما یہودیت پارٹی ممکنہ طور پر موجودہ چھ نشستوں کی جگہ زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ تاریخ نتین یاہو کی بات پر اپنا فیصلہ ان دو سوالات کے تناظر میں سنائے گی۔ پہلا کیا حماس اسرائیل کے لیے بدستور خطرہ رہے گی؟ اور کیا یرغمالی بہ حفاظت اسرائیل واپس پہنچیں گے۔


اگر نیتن یاہو کی حکومت ان دو معاملات میں ناکام رہتی ہے تو تاریخ انہیں بالکل مختلف انداز سے یاد کرے گی۔ نیتن یاہو اسرائیلی تاریخ کے سب سے طویل عرصے تک وزیراعظم رہنے والے سیاست دان ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں'اسرائیل کے محافظ‘ کے طور پر یاد رکھا جائے تاہم ممکن ہےکہ وہ اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار ایک جنگ ہار جانے کا تصور چھوڑ کر جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔