اسرائیل بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہا ہے، یورپی یونین

سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل میں کیے گئے حملے کے دوران 1000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور تقریباً 250 کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

یورپی یونین کے سربراہ برائے خارجہ امور کے مطابق اسرائیل غزہ میں بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 31 ہزار سات سو سے تجاوز کر گئی ہے۔یورپی یونین کے خارجہ امور کے سبراہ جوزیپ بوریل کا غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد سے متعلق برسلز میں پیر کے روز ایک کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر کہنا تھا، ''غزہ میں اب ہم قحط کے دہانے پر نہیں بلکہ ہم قحط کی حالت میں ہیں، جس سے ہزاروں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا، ''یہ ناقابل قبول ہے۔ بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘

دریں اثنا غزہ کی وزارت صحت نے اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں، جن کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے شروع ہونے والی اس جنگ میں اب تک 31700 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد تقریباﹰ 73800 بنتی ہے۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید تقریباً 81 فلسطینی ہلاک اور 116 زخمی ہوئے ہیں۔


غزہ میں اس جنگ کا آغاز پچھلے سال اکتوبر میں اسرائیل میں حماس، جسے یورپی یونین، امریکہ، جرمنی اور کئی دیگر ممالک باقاعدہ طور پر دیشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں، کے ایک حملے کے بعد ہوا تھا۔ سات اکتوبر کو اس کی جانب سے اسرائیل میں کیے گئے حملے کے دوران 1000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور تقریباً 250 کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔ ان یرغمالیوں میں سے کئی کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل کے مطابق اب بھی 130 یرغمالی غزہ میں ہیں، جن میں سے 33 ہلاک ہو چکے ہیں۔

دریں اثنا نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل کے انٹیلی جنس چیف، قطر کے وزیر اعظم اور مصری حکام کے درمیان غزہ میں ممکنہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے پر پیر کو دوحہ میں بات چیت متوقع ہے۔


قبل ازیں نیوز ایجنسی روئٹرز نے بھی کہا لکھا تھا کہ اسرائیل پیر کے روز موساد کے سربراہ کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد قطر بھیج رہا ہے تاکہ چھ ہفتوں کی جنگ بندی کے لیے مذاکرات کیے جا سکیں۔ ابتدائی اور غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق حماس اس ممکنہ معاہدے کے تحت 40 اسرائیلی مغویوں کو رہا کر سکتی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹ میں اسرائیلی حکومت کے ایک اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس ممکنہ معاہدے کو حتمی شکل دینے میں دو ہفتے بھی لگ سکتے ہیں کیوں کہ غزہ میں موجود حماس کے عسکریت پسندوں تک پیغام پہنچانے اور مذاکرات کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

گزشتہ روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا، ''بین الاقوامی دباؤ کتنا بھی زیادہ کیوں نہ ہو، وہ ہمیں اس جنگ میں اپنے مقاصد کے حصول سے روک نہیں سکے گا۔ یہ مقاصد حماس کا خاتمہ، ہمارے تمام یرغمالیوں کی رہائی اور اس بات کو یقینی بنانا ہیں کہ غزہ دوبارہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن سکے۔‘‘


اسرائیل پر یہ دباؤ کافی زیادہ ہے کہ وہ مصر کے ساتھ سرحد کے قریب واقع جنوبی شہر رفح میں اپنے دستوں کے ذریعے اس لیے کوئی زمینی آپریشن نہ کرے کہ یوں وہاں بہت زیادہ شہری جانی نقصان کا خطرہ ہو گا۔ غزہ جنگ میں اس خطے کی مجموعی طور پر تقریباﹰ 2.4 ملین کی آبادی کا بہت بڑا حصہ اپنے آبائی رہائشی علاقوں سے نقل مکانی کر کے رفح میں پناہ لے چکا ہے۔

اسرائیلی فوج کا رفح میں ممکنہ زمینی آپریشن ابھی سے کس قدر متنازعہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی ملک امریکہ کے صدر جو بائیڈن بھی یہ بات کھل کر کہہ چکے ہیں کہ شہری آبادی کے تحفظ کے کسی واضح اور قابل اعتماد منصوبے کے بغیر اسرائیل کی طرف سے رفح میں فوجی مداخلت ایک 'ریڈ لائن‘ ہو گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔