غزہ کی جنگ چھٹے مہینے میں داخل، رمضان سے قبل سیزفائر کی امید کم

اس جنگ میں فریقین کے مابین ثالثی کوششیں کرتے ہوئے امریکہ، قطر، مصر اور دیگر ممالک اس کاوش میں ہیں کہ کسی طرح آئندہ ہفتے شروع ہونے والے رمضان کے اسلامی مہینے سے پہلے جنگ بندی ممکن بنا دی جائے۔

غزہ کی جنگ چھٹے مہینے میں، رمضان سے قبل سیزفائر کی امید کم
غزہ کی جنگ چھٹے مہینے میں، رمضان سے قبل سیزفائر کی امید کم
user

Dw

غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں اسرائیل اور حماس کے مابین جاری جنگ درجنوں مزید ہلاکتوں کے ساتھ سات مارچ کو اپنے چھٹے مہینے میں داخل ہو گئی۔ ساتھ ہی رمضان کے اسلامی مہینے سے قبل جنگ بندی کی امیدیں بھی کم ہو گئی ہیں۔غزہ پٹی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ برس سات اکتوبر کو عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل میں حملے کے فوری بعد شروع ہونے والے جنگ کل جمعرات سات مارچ کو اپنے چھٹے مہینے میں داخل ہو گئی ہے۔

اس جنگ میں فریقین کے مابین ثالثی کوششیں کرتے ہوئے امریکہ، قطر، مصر اور دیگر ممالک اس کاوش میں ہیں کہ کسی طرح آئندہ ہفتے شروع ہونے والے رمضان کے اسلامی مہینے سے پہلے جنگ بندی ممکن بنا دی جائے اور ایک باقاعدہ معاہدہ بھی طے پا جائے۔ اس جنگ میں عنقریب ہی کسی سیزفائر ڈیل کی امیدوں کو کل ایک نیا دھچکہ اس وقت لگا جب غزہ میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے بتایا کہ اس گنجان آباد فلسطینی علاقے میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں مزید 83 افراد مارے گئے۔


وزارت صحت کے مطابق اس جنگ کے آج پورے ہونے والے پانچ مہینوں میں اب تک 30,800 ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور غزہ پٹی میں مرنے والوں میں اکثریت فلسطینی خواتین اور بچوں کی تھی۔ یہ جنگ سات اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی تھی جب حماس کے جنگجوؤں نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کرتے ہوئے ساڑھے گیارہ سو کے قریب افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور واپس غزہ جاتے ہوئے وہ تقریباﹰ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔

پچھلے سال نومبر میں اس جنگ میں بین الاقوامی کوششوں سے ہونے والی محدود جنگ بندی کے دوران حماس نے ان یرغمالیوں میں سے سو سے زائد کو رہا کر دیا تھا جبکہ اسرائیل نے بھی اپنے ہاں جیلوں میں بند بہت سے فلسطینی قیدی رہا کر دیے تھے۔ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے اب بھی سو سے زیادہ غزہ پٹی کے علاقے میں حماس کی قید میں ہیں۔


امریکہ، مصر اور قطر کی کوششوں سے لیکن کسی اسرائیلی وفد کی موجودگی کے بغیر ہی مصری دارالحکومت قاہرہ میں گزشتہ چند روز سے جو مذاکرات اور ثالثی کوششیں جاری تھے، ان کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ رمضان کے اسلامی مہینے سے پہلے ہی حماس اور اسرائیل کے مابین ایک ایسی سیز فائر ڈیل ہو جائے، جس کا دورانیہ کم از کم بھی چھ ہفتوں کا ہو۔

ایسی کسی ڈیل میں یہ بات بھی شامل ہونا تھی کہ حماس اپنے زیر قبضہ باقی ماندہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے۔مصر میں ریاستی انٹیلیجنس اداروں کے قریب سمجھے جانے والے نشریاتی ادارے القاہرہ نیوز چینل نے اعلیٰ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے آج بتایا کہ حماس کا قاہرہ مذاکرات میں شامل وفد واپس روانہ ہو گیا ہے۔


خود حماس نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اس کے مذاکراتی نمائندے، جو فائر بندی سے متعلق مشاورت کے لیے مصر میں تھے، قاہرہ سے واپس چلے گئے ہیں۔ ساتھ ہی حماس نے، جسے یورپی یونین کے ساتھ ساتھ امریکہ، جرمنی اور کئی دیگر ممالک نے بھی ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، فائر بندی ڈیل سے متعلق اسرائیلی ردعمل پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ القاہرہ نیوز چینل کے مطابق یہ مذاکرات آئندہ ہفتے جاری رکھے جائیں گے۔

غزہ کی جنگ میں ایک طرف اگر سیزفائر مذاکرات اب تک بے نتیجہ ثابت ہو رہے ہیں، تو دوسری طرف اقوام متحدہ، بین الاقوامی امدادی اداروں اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے غزہ میں لاکھوں فلسطینیوں کو درپیش المناک حالات پر عدم اطمینان کا اظہار بھی شدید ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے ایک بار پھر تنبیہ کی ہے کہ غزہ پٹی میں، جس کا زیادہ تر حصہ تباہ ہو چکا ہے، لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کو خوراک، پینے کے صاف پانی، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی شدید قلت کا سامنا ہے۔


عالمی ادارے نے کہا ہے کہ غزہ میں کسی نہ کسی طرح زندہ رہنے کی جدوجہد میں مصروف فلسطینیوں کو بھوک کا سامنا تو ہے لیکن یہ صورت حال ہلاکت خیز قحط بھی بن سکتی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چینی وزیر خارجہ نے غزہ کی صورت حال کے بارے میں آج کہا، ''یہ انسانیت کے لیے ایک المیہ اور تہذیب کی تذلیل ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی اس تباہ کن انسانی صورت حال کو نہیں روکا جا سکتا۔‘‘

چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے بیجنگ حکومت کا یہ موقف دہرایا کہ غزہ میں فوری طور پر زیادہ سے زیادہ امدادی سامان کی ترسیل کی اجازت دی جانا چاہیے۔ غزہ میں وزارت صحت نے کل بدھ کو بتایا تھا کہ اس جنگ زدہ علاقے میں بیس افراد کم خوراک اور جسم میں پانی کی کمی کے طبی اثرات کے باعث انتقال کر گئے۔ ان میں سے کم از کم نصف بچے تھے۔


قبل ازیں اسی ہفتے امریکی صدر بائیڈن اور ان کی نائب کملا ہیرس بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے فوری فائر بندی کی جائے اور زیادہ سے زیادہ امدادی سامان کی غزہ تک ترسیل کی اجازت دی جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔