جاپان میں کساد بازاری کے سبب جرمنی تیسری سب سے بڑی معیشت

جاپان کی سخت لیبر مارکیٹ اور مضبوط کارپوریٹ اخراجات کے منصوبوں نے بینک آف جاپان کے انتہائی ڈھیلی مانیٹری پالیسی سے باہر نکلنے کے منصوبوں کو زندہ رکھا ہے۔

جاپان میں کساد بازاری کے سبب جرمنی تیسری سب سے بڑی معیشت
جاپان میں کساد بازاری کے سبب جرمنی تیسری سب سے بڑی معیشت
user

Dw

جاپان کے سرکاری معاشی اعداد و شمار سے معلوم پڑتا ہے کہ ملک تکنیکی کساد بازاری میں پھسل چکا ہے اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کے طور پر اب وہ جرمنی سے پیچھے ہو گیا ہے۔15 فروری جمعرات کے روز جاری ہونے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جرمنی نے جاپان کو دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ٹوکیو کے تازہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاپان کی معیشت کساد بازاری کی جانب پھسل رہی ہے۔

حکومت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن 2023 میں جاپان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) ڈالر کے لحاظ سے 4.2 ٹریلین ڈالر تک ہی رہی، جبکہ تازہ اعداد وہ شمار کے مطابق اس کے مقابلے میں جرمنی کی جی ڈی پی 4.5 ٹریلین ڈالر رہی۔


جاپانی کرنسی ین سن 2022 اور 2023 میں ڈالر کے مقابلے میں 18 فیصد سے زیادہ تک گر گیا۔ گزشتہ برس اس میں سات فیصد کی گراوٹ بھی شامل ہے، جس کی ایک بڑی وجہ بینک آف جاپان کی جانب سے منفی شرح سود کو برقرار رکھنا بھی ہے۔ دوسری جانب جرمنی میں استعمال ہونے والی کرنسی یورو اسی عرصے کے دوران مجموعی طور پر ڈالر کے مقابلے میں کم و بیش مستحکم رہی۔

جرمن اور جاپانی معیشتوں کو لیبر کی کمی، شرح پیدائش میں کمی اور عمر رسیدہ آبادی جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے، لیکن ان دونوں ممالک میں سب سے زیادہ سنگین معاملہ جاپان کا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ برس معیشت میں مجموعی طور پر 1.9 فیصد کا اضافہ ہوا، تاہم گزشتہ دو مسلسل سہ ماہیوں کے درمیان یہ سکڑتی گئی ہے۔


دو مسلسل سہ ماہی میں معیشت کے سکڑنے کو عام طور پر تکنیکی کساد بازاری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تقریباً 125 ملین افراد کی آبادی کے ساتھ جاپان اور تقریباً 83 ملین افراد کے ساتھ کافی چھوٹا جرمنی، دنیا بھر میں اعلیٰ درجے کی تیار کردہ اشیاء کے برآمد کنندگان کے طور پر معروف ہیں۔ اس کی سب سے واضح مشترکہ مثال آٹوموٹیو سیکٹر ہے۔برسوں تک جاپان امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت رہا اور پھر سن 2010 میں چین نے اسے پیچھے چھوڑ دیا۔

ترقی پذیر ملک بھارت کی آبادی تقریبا ایک ارب چالیس کروڑ ہے اور جس کی بیشتر آبادی کی عمر 35 برس سے کم ہے، تاہم اس کی معاشی شرح نمو تیز ہے۔ امکان ہے کہ شاید جلدی ہی بھارت جرمنی اور جاپان کی دونوں معیشتوں کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ اور چین کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک بن سکتا ہے۔


جاپان سے آنے والے کمزور اعداد و شمار سے بینک آف جاپان کی اس پیشن گوئی پر شک پیدا ہونے کا امکان ہے کہ بڑھتی ہوئی اجرت کھپت کو بڑھا دے گی، جس مرکزی بینک کو منفی شرح سود ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ کریڈٹ ایگریکول کے چیف اکانومسٹ تاکوجی ایڈا نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ''عالمی ترقی کی سست رفتار، کمزور گھریلو طلب اور مغربی جاپان میں نئے سال کے زلزلے کے اثرات کی وجہ سے جنوری اور مارچ کی سہ ماہی میں معیشت ایک بار مزید سکڑ سکتی ہے۔''

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے، ''بینک آف جاپان کو سن 2023 اور 2024 کے لیے اپنی جی ڈی پی کی پیش گوئیوں کو تیزی سے کم کرنا پڑ سکتا ہے۔'' تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جاپان کی سخت لیبر مارکیٹ اور مضبوط کارپوریٹ اخراجات کے منصوبوں نے بینک آف جاپان کے انتہائی ڈھیلی مانیٹری پالیسی سے باہر نکلنے کے منصوبوں کو زندہ رکھا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔