پولینڈ کی باربرا گوریتسکا ’چمگادڑوں کی ماں‘ کیسے بنیں؟

چمگادڑوں کی اس پناہ گاہ میں موجود سب چمگادڑوں کے نام ہیں اور ہر ایک کے کھانےکی ٹائمنگ الگ الگ ہے اور ساتھ ساتھ ان کی ادویات کا پلان بھی موجود ہے۔

پولینڈ کی باربرا گوریتسکا ’چمگادڑوں کی ماں‘ کیسے بنیں؟
پولینڈ کی باربرا گوریتسکا ’چمگادڑوں کی ماں‘ کیسے بنیں؟
user

Dw

انہتر سالہ پولش خاتون باربرا گوریتسکا ایک بلند رہائشی عمارت کی نویں منزل پر واقع اپنے فلیٹ میں رہتی ہیں اور اُڑنے والے ممالیہ جانور چمگادڑوں کی پناہ گاہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ جن کے ساتھ ان کی محبت بہت منفرد ہے۔باربرا گوریتسکا ایک اونچی رہائشی عمارت کی نویں منزل پر واقع اپنے فلیٹ میں چمگادڑوں کے لیے ایک پناہ گاہ چلاتی ہیں۔ ان کے مطابق وہ اب تک 1600 چمگادڑوں کی دیکھ بھال کرنے میں کامیاب رہی ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔

گوریتسکا نے اپنے فلیٹ میں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوے کہا، ''یہ سلسلہ 16 سال قبل، جنوری کی ایک انتہائی سرد رات کو شروع ہوا تھا۔ تب چمگادڑوں نے میرے گھر کے روشن دانوں سے اندر داخل ہونا شروع کیا تھا۔‘‘ وہ اس وقت تقریباً تین درجن چمگادڑوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ شدید بیمار ہیں یا زخمی حالت میں ہیں، یا 'ہائبرنیشن‘ سردیوں کے موسم میں کی جانے والی لمبی نیند سے اچانک بیدار ہوئے ہیں۔


پولش پنشنر خاتون کے مطابق ان کی پناہ گاہ میں چمگادڑوں کی تعداد میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ موسمیاتی شدت کی وجہ سے چمگادڑوں کو یہ دھوکا ہوتا ہے کہ شاید موسم بہار آگیا ہے اور باہر زیادہ سردی نہیں رہی۔ یہ سوچ کر وہ اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلتی ہیں تو حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ یعنی اب بھی موسم اچھا خاصا سرد ہوتا ہے۔ کم درجہ حرارت میں انہیں سردی لگ جاتی ہے، وہ بیمار ہو جاتی ہیں اور سردی کا مقابلے کرنے کے لیے ان کی کافی زیادہ توانائی صرف ہو جاتی ہے اور وہ بیماری کی حالت میں اور سردی سے بچنے کے لیے باربرا گوریتسکا کی پناہ گاہ کا رُخ کرتی ہیں۔

باربرا گوریتسکا کہتی ہیں، ''گرم موسم اور غیر معمولی طور پر زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے وہ سوچتی ہیں کہ موسم بہارآ گیا ہے اور یہاں آکر انہیں کھانا بھی ملے گا۔ بدقسمتی سے، وہ یہاں پہنچنے تک اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ اڑ بھی نہیں سکتیں۔‘‘


پولینڈ سے تعلق رکھنے والی خاتون نے بتایا کہ وہ شروع شروع میں چمگادڑوں کے بارے میں عام لوگوں کی طرح تعصب پر مبنیٰ عقائد رکھتی تھیں۔ ان کا ماننا تھا کہ چمگادڑوں کے کاٹنے سے انسان 'ریبیز‘ جیسی بیماری کا شکار ہوسکتا ہے پر ان کا یہ گمان ان کی ایک مائیکرو بایولوجسٹ دوست سے مشورہ کرنے کے بعد ختم ہو گیا۔ گوریتسکا کو اب ماہرین کی خدمات حاصل ہیں اور ساتھ ساتھ ان کے رضاکاروں کا ایک نیٹ ورک بھی قائم ہو گیا ہے جو ان کو چمگادڑوں کی اس پناہ گاہ میں دیکھ بھال کے لیے مدد کرتے ہیں۔

چمکادڑوں کی دیکھ بھال

اس پناہ گاہ میں موجود سب چمگادڑوں کے نام ہیں اور ہر ایک کے کھانےکی ٹائمنگ الگ الگ ہے اور ساتھ ساتھ ان کی ادویات کا پلان بھی موجود ہے۔ گوریتسکا کے مطابق کچھ چمگادڑیں اس پناہ گاہ میں قلیل مدت یعنی 2 ہفتے تک قیام کرتی ہیں، تاہم اگر ان کی ہڈی وغیرہ ٹوٹی ہو تو انہیں صحتیابی تک طویل مدتی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔


گوریتسکا نے کہا، ''مجھے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ میں ان سے بے حد محبت کرتی ہوں اور اسی لیے حسب ضرورت آدھی رات کو اٹھ کر انہیں اینٹی بائیوٹک دیتی ہوں۔‘‘ چمگادڑوں سے انوکھی محبت کرنے والی گوریتسکا کا ماننا ہے کہ ، ''یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ آپ ایک بچے سے پیار کرتے ہوں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔