جرمنی میں قائم مساجد کے بارے میں چھ اہم حقائق

جرمنی میں مساجد کی تعداد اندازہﹰ ساڑھے تین ہزار سے ساڑھے سات ہزار تک ہے۔ زیادہ تر مساجد کے مینار نہیں ہیں۔ صرف تیس مساجد سے لاؤڈ اسپیکروں پر روزانہ پانچ مرتبہ اذانیں کچھ دور سے بھی سنی جا سکتی ہیں۔

جرمنی میں قائم مساجد کے بارے میں چھ اہم حقائق
جرمنی میں قائم مساجد کے بارے میں چھ اہم حقائق
user

Dw

جرمنی میں قائم ہزاروں مساجد میں سے زیادہ تر گھروں کے عقبی حصوں یا صنعتی پارکوں میں ہیں۔ حال ہی میں جرمنی میں منائے گئے سالانہ 'اوپن مسجد ڈے‘ کے موقع پر ان مسلم عبادت گاہوں کے دروازے حسب روایت عوام کے لیے کھول دیے گئے۔ جرمنی میں 1997ء سے ہر سال تین اکتوبر کو اوپن مسجد ڈے منایا جاتا ہے۔ اس سال بھی پورے جرمنی میں تقریباﹰ ایک ہزار مساجد نے مسلم اور غیر مسلم افراد کو آپس میں تبادلہ خیال اور ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے اپنے دروازے دن بھر کھلے رکھے۔ 2022 میں اس دن کا نعرہ تھا: 'نایاب وسائل - عظیم ذمہ داری‘۔

جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل (زیڈ ایم ڈی) کے چیئرمین ایمن مازیک کاکہنا ہے، ''ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث پیدا شدہ بحران کے اثرات ہمارے ملک اور دنیا کے بہت سے دیگر حصوں میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں، جیسا کہ حال ہی میں پاکستان میں تباہ کن سیلابوں کی صورت میں بھی دیکھنے میں آیا۔‘‘


جرمنی میں مساجد کی اصل تعداد غیر یقینی ہے۔ تاہم اندازوں کے مطابق ان مساجد کی تعداد ساڑھے تین ہزار سے لے کر ساڑھے سات ہزار تک کے درمیان ہو سکتی ہے۔ ذیل میں جرمنی میں مساجد کے بارے میں چھ اہم حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ جرمن اسلام کانفرنس کی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں رہنے والے 55 لاکھ مسلمانوں میں سے 24 فیصد ہفتے میں کم از کم ایک بار کسی نہ کسی مقامی مسجد میں جاتے تھے۔

جرمن سلطنت کی پہلی مسجد میں جہادیوں کی تربیت

استنبول کے مفتی کی درخواست پر 1915ء میں برانڈن برگ میں تعمیر کردہ وینسڈورف مسجد کو جرمنی اور پورے وسطی یورپ میں پہلی اسلامی عمارت سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان جنگی قیدیوں کے ایک کیمپ کے وسط میں تعمیر کی گئی اس مسجد کے باعث اس کیمپ کو 'ہلال کیمپ‘ کا نام بھی دیا گیا تھا۔ یہ نماز کی ادائیگی کے لیے ایک پرامن جگہ تھی، لیکن جرمن سلطنت نے اس مسجد کو مسلمانوں میں ان کے نو آبادیاتی حکمرانوں فرانس اور برطانیہ کے خلاف جذبات کو بھڑکانے کے لیے استعمال کیا۔ جرمن سلطنت نے اس عمل کو 'انقلابی حکمت عملی‘ کا نام دیا تھا۔ یہاں کئی جہادیوں نے حلف بھی اٹھایا اور آخر کار انہیں ایک 'مقدس جنگ‘ لڑنے کے لیے بھجوا دیا گیا تھا۔


مسلم جنگی قیدیوں کے ساتھ تحقیقی مقاصد کے لیے بدسلوکی بھی کی گئی، جس میں ان کی زبان کی آڈیو ریکارڈنگ اور بشریاتی پیمائشیں بھی شامل تھی۔ یہ نتائج بعد میں ایک ایسے مطالعے کا حصہ بن گئے، جسے نازیوں نے 'نسلی سائنس‘ کا نام دیا تھا۔ 1928ء میں برلن میں ولمرزڈورف کے علاقے میں ایک نئی مسجد تعمیر کی گئی تو وینسڈورف کی مسجد نے اپنی اہمیت کھو دی۔ یوں وینسڈورف مسجد کو اس کے افتتاح کے 15 سال سے بھی کم عرصے کے بعد 1930ء میں منہدم کر دیا گیا۔

تاج محل سے مماثلت

برلن کے مضافاتی علاقے ولمرزڈورف میں واقع یہ مسجد جرمنی میں تعمیر کردہ قدیم ترین مسجد ہے۔ اس کی عمارت بھارت کے عالمی شہرت یافتہ تاج محل سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ اس مسجد کے 30 میٹر سے زیادہ بلند دو مینار ہیں۔ اسے جرمن ماہر تعمیرات کارل آؤگسٹ ہیرمان نے لاہور (جو اب پاکستان میں ہے) کی احمدیہ کمیونٹی کے لیے ڈیزائن کیا تھا اور اس جماعت کے ارکان 1920ء میں جرمنی آئے تھے۔ انہوں نے جرمن مسلمانوں کے تعاون سے جرمن مسلم سوسائٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ برلن میں ولمرزڈورف کی یہی عبادت گاہ احمدیوں کی زندگیوں کا مرکز بن گئی تھی۔


برلن کی ایک مسجد کی خواتین واعظین

2017 ء میں جرمنی کے دارالحکومت میں مسلمانوں کی ایک بہت ہی خاص قسم کی عبادت گاہ قائم کی گئی۔ ابن رشد گوئٹے نامی اس مسجد میں مرد اور عورتیں ایک ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ عورتوں کو نما ز کی امامت کرانے کی بھی اجازت ہے اور یہاں ہم جنس پرستوں کو بھی آنے کی اجازت ہے۔ اس مسجد کی ویب سائٹ پر لکھا گیا ہے، ''ابن رشد گوئٹے مسجد ایک ترقی پسندانہ معاصر اسلام کی نمائندگی کرتی ہے جو جمہوریت اور انسانی حقوق سے مطابقت رکھتی ہے۔ ہم ایک ایسے اسلام میں رہتے ہیں جس میں خواتین اور مرد برابر ہیں۔‘‘ اس ویب سائٹ پر مسجد کے بارے میں مزید لکھا گیا ہےکہ یہاں اسلام کے تمام عقائد کا خیرمقدم کیا جاتا ہے، ''سنیوں، شیعوں، صوفیوں اور علویوں کو ہماری برادری میں اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔‘‘

ایک وکیل، مصنفہ اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن سیرن آتش نے اس مسجد کی مشترکہ بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے اپنے اس ترقی پسند انہ موقف کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور جان سے مار دیے جانے کی دھمکیوں کے بعد وہ اب چوبیس گھنٹے پولیس کی حفاظت میں رہتی ہیں۔


مساجد کی منتظم تنظیمیں

جرمنی میں مساجد کو ان عبادت گاہوں کی منتظم تنظیمیں چلاتی ہیں۔ اپنی رکن مساجد کی تعداد کے لحاظ سے جرمنی میں سب سے مشہور اور شاید سب سے بڑی اسلامی انجمن ترک اسلامی یونین برائے مذہبی امور (دیتیب) ہے۔ اس ایسوسی ایشن کو ترکی کی سرکاری مذہبی اتھارٹی 'دیانت‘ کے ماتحت ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس ایسوسی ایشن کے ماتحت امام کئی سالوں سے جرمن مساجد میں تعینات کیے جاتے ہیں۔ ان آئمہ میں سے زیادہ تر ترکی میں تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور انہیں ترک ریاست کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔

کئی برسوں سے ناقدین ان مساجد میں ہونے والے اجتماعات پر ترک ریاست کے اثر و رسوخ کے بارے میں متنبہ کرتے رہے ہیں۔ 2018 ءکے ترک صدارتی انتخابات سے بھی ظاہر ہو گیا تھا کہ موجودہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے جرمنی میں بہت سے حامی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایردوآن کے جرمنی کے دورے کے موقع پر ان کے حامیوں نے ان کا گرمجوشی سے استقبال بھی کیا تھا اور حوصلہ افزائی بھی۔


مساجد کی اکثریت دیکھنے میں مساجد نہیں لگتی

اگرچہ جرمن شہروں میں اکثریتی مسیحی آبادی کے کلیسا تقریباﹰ ہر جگہ نظر آتے ہیں اور دیہات کی اکثریت بھی کسی نہ کسی چرچ کے ارد گرد ہی تعمیر کی گئی، تاہم جرمنی میں مساجد شاید ہی قابل ذکر رہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو باہر سے دیکھ کر پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ اکثر مساجد کسی رہائشی علاقے، شہر ی مرکز سے باہر تجارتی علاقے میں یا پھر کسی مکان کے عقبی حصے میں قائم ہوتی ہیں۔

جرمن زبان میں اس طرح کی مسجدوں کے لیے جو اصطلاح استعمال ہوتی ہے، وہ 'ہِنٹرہوف موشے‘ یا کسی 'عمارت کے عقبی برآمدے میں قائم کردہ مسجد‘ ہے ۔ اگرچہ محل وقوع کی وضاحت کے لیے یہ اصطلاح موزوں ہے لیکن اس لسانی ترکیب کا معنوی پیغام اکثر غلط یا منفی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔


اس حوالے سے دیتیب کے زیر اہتمام کولون کی مرکزی مسجد ایک شاندار استثنیٰ ہے۔ اسے 2017 میں ایک جرمن ماہر تعمیرات پاؤل بوہم نےڈی‍زائن کیا تھا۔ اس کا تعمیراتی انداز بڑی جدت کا حامل ہے۔ اس مسجد میں بیک وقت بارہ سو مسلمان نماز ادا کر سکتے ہیں۔

لاؤڈ اسپیکروں پر اذان کا رجحان کم

اسلامی ممالک میں روایتی طور پر مؤذن کسی بھی مسجد میں روزانہ پانچ وقت کی نماز اور جمعے کی باجماعت نماز کے لیے بھی اس مسجد کے میناروں پر لگے لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے اذانیں دیتے ہیں۔ جرمنی میں مساجد کو بالعموم یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہاں سے لاؤڈ اسپیکروں پر اتنی بلند آواز میں اذانیں دی جائیں کہ ان کی آواز دور دور تک سنائی دے۔ یہ اجازت شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔ جرمنی کی زیادہ تر مساجد کے مینار بھی نہیں ہیں۔ پورے ملک میں ایسی صرف تقریباﹰ 30 مساجد ہیں، جہاں سے مؤذن کی طرف سے دی جانے والی اذانیں ان مساجد کے ارد گرد کے قریبی علاقوں میں بھی باقاعدگی سے سنائی دیتی ہیں۔ دیگر تمام مساجد میں اذانیں ایسے چھوٹے لاؤڈ اسپیکر سسٹمز کے ذریعے دی جاتی ہیں، جو صرف متعلقہ مسجد کے اندر یا اکثر ان سے ملحقہ کمیونٹی سینٹرز کے اندر تک ہی سنی جا سکتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔