ہندوستان پر دس فلمیں، اس خطے کو سمجھنے میں مددگار

اگر آپ ہندوستانی لوگوں اور اس خطے کے سیاسی و معاشرتی ارتقائی عمل کو سمھنا چاہتے ہیں تو یہ دس فلمیں مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں۔

انڈیا پر دس فلمیں، اس خطے کو سمجھنے میں مددگار
انڈیا پر دس فلمیں، اس خطے کو سمجھنے میں مددگار
user

Dw

چھبیس جنوری یعنی آج بھارت اپنا پچھترواں یوم جمہوریہ منا رہا ہے۔ پندرہ اگست سن انیس سو سینتالیس کو وجود میں آنا والا یہ ملک اپنے اندر کئی ایسی کہانیاں لیے ہوئے ہے، جنہوں نے اس خطے کے لوگوں کے جذباتی و نفسیاتی ارتقائی عمل کو موجودہ شکل دی ہے۔

ادب، پرفارمنگ آرٹ اور فلمیں کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار کرتی ہیں۔ یہ فنون لطیفہ جہاں، سماجی رویوں کو ترتیب دیتے ہیں، وہیں ان اصناف سے کسی مخصوص معاشرے کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔


بھارتی فلم انڈسٹری ملک کی ایک خاص ساکھ کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ بالی وڈ نے نہ صرف ایشیائی خطے کو اپنی تخلیقات سے متاثر کیا بلکہ اب تو عالمی سطح پر بھی یہ ایک خاص مقام بنا چکی ہے۔ اس ملک میں یا اس خطے کے بارے میں بننے والی کمرشل، آرٹ یا دستاویزی فلمیں ہوں یا ڈرامے، اپنی اندر کئی جہتیں لیے ہوئے ہیں۔

بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع کی مناسبت سے ایسی دس تخلیقات پر نگاہ ڈالتے ہیں، جنہوں نے بالخصوص مغربی ممالک میں اس دیس کے بارے میں کئی ایسے پہلوؤں کو اجاگر کیا، جو ابھی بھی عام لوگوں کے لیے مخفی ہی تھے۔


دی گریٹ انڈین کچن (2012)

ملیالم زبان میں بنائی گئی فلم 'دی گریٹ انڈین کچن‘ نے بھارت بھر میں دھوم مچا دی۔ اس فلم کی کہانی ایک ایسی خاتون کے گرد گھومتی ہے، جو شادی کے بعد ایک ایسی روایتی بیوی کے کردار کو اپنانا چاہتی ہے، جو معاشرے نے شادی شدہ خواتین کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔

تاہم وہ اس مصنوعی ماحول میں خود کو اجنبی سمجھنے لگتی ہے اور معاشرتی سطح پر تخلیق کردہ ان معیارات کو چیلنج کرتی ہے، جو بھارتی پدرشاہی نظام میں بالخصوص خواتین کے لیے بنائے گئے ہیں۔


اس فلم کے ہدایتکار جو بابی کے بقول انہوں نے اس فلم میں دانستہ طور پر ایسے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، جو پدرسری نظام کے حامی مردوں کے لیے ناخوشگوار ہیں، تاکہ وہ اس پر نظر ثانی کریں۔ بھارت میں صنفی امتیاز پر مبنی یہ فرسودہ رویے صدیوں سے معاشرتی ڈھانچے کا ایک اہم حصہ تصور کیے جاتے ہیں، جنہیں بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔

جے بھیم (2021)

تمل زبان میں تخلیق کردہ 'جے بھیم‘ میں ذات پات کے قدیمی نظام کو جدید دور کے عدسوں سے پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ٹی جے گیانوئل کی اس پیشکش میں مرکزی کردار ساؤتھ انڈین سپر سٹار سوریہ نے نبھایا ہے۔


اس فلم میں ہندو کاسٹ سسٹم کے تحت نچلی ذات تصور کی جانے والی دلت کمیونٹی کی محرمیوں اور ان پر ہونے والے ظلم وستم کی داستان کو کامیابی سے رقم کیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ مووی ڈیٹا بیس (IMDb) کے مطابق فلم بینوں نے 'جے بھیم‘ کو موجودہ دور کی بہترین فلموں سے ایک قرار دیا ہے، جو مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔

بالخصوص جنوبی بھارتی فلم انڈسٹریمیں ایک تحریک کے تحت ہندو کاسٹ سسٹم کو چیلنج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو صدیوں سے اس سماج میں بسا ہوا ہے لیکن کئی حلقے اسے ایک ناسور کے مترادف قرار دیتے ہیں۔


سردار اُدھم (2021)

ہندوستان کے انقلابی رہنما اُدھم سنگھ کی زندگی پر بنائی گئی اس فلم میں وکی کوشل نے اُدھم سنگھ کا کردار نبھایا ہے۔ ایمازون پرائم پر جاری کی گئی اس فلم کو تنقیدی حلقوں کی طرف سے ستائش مل رہی ہے۔

انیس سو دس کی دہائی میں اُدھم سنگھ برٹش راج کے خلاف ایک مقامی ہیرو بن گئے تھے۔ وہ انیس سو انیس میں جیلانوالہ قتل عام کے چشم دید گواہ تھے۔ تب برطانوی فوج نے امرتسر کے اس مقام پر پُرامن اور نہتے مظاہرین پر فائر کھول دیا تھا، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔


اُدھم سنگھ نے تحریک آزادی کے دوران اس وقت پنجاب میں برٹش لیفٹینٹ گورنر مائیکل اوڈائر کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں سن انیس سو تینتس میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔ تاہم اُدھم سنگھ آج تک برصغیر پاک و ہند کے بالخصوص پنجاب ریجن میں ایک ہیرو کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔

انڈیا‘ز ڈاٹر (2015)

انڈیا'ز ڈاٹر (بھارت کی بیٹی) نامی دستاویزی فلم میں اکیس سالہ نربھایہ کے گینگ ریپ سے متعلق معاشرتی ڈھانچے کی خرابیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس خاتون کو دسمبر سن دو ہزار بارہ میں دارالحکومت نئی دہلی میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا۔


برطانوی فلم میکر لیزلی اُڈوِن کی اس دستاویزی فلم پر بھارت میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ بھارتی عدالت کے مطابق اس فلم میں شامل کیا گیا ایک مجرم کا انٹرویو خواتین کی توہین تھا۔ مجرم مکیش سنگھ نے کہا تھا کہ ریپ کی ذمہ دار خواتین ہی عائد ہوتی ہیں۔

ماسان (2015)

ماسان نامی فلم شمالی بھارتی شہر ورانسی (بنارس) کی رہائشی دیوی نامی ایک لڑکی کی محبت کی کہانی ہے، جو ذات پات اور سماجی پابندیوں سے لڑ جاتی ہے۔ نیرج گھائوان کی اس فلم کو کن فلم فیسٹیول میں ایک انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔ اس فلم میں بھارت کی اس اہم اخلاقی قدر کو چیلنج کیا گیا ہے، جس کے تحت شادی سے پہلے سیکس ایک گھناؤنا عمل ہے۔


انشاللہ فٹ بال (2010)

'انشاللہ فٹ بال‘ فٹ بال کے مداحوں کے لیے بنائی گئی ایک دستاویزی فلم ہے۔ اس میں ایک ایسے کشمیری نوجوان فٹ بالر کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو بیرون ملک جا کر فٹ بال کے مقابلوں میں حصہ لینا چاہتا ہے تاہم اسے اس لیے پاسپورٹ نہیں دیا جاتا کیونکہ اس کا والد کشمیری علیحدگی پسند جنگجو گروہ حزب المجاہدین کا رکن ہوتا ہے۔ اس ڈاکومنٹری میں اس نوجوان کی زندگی کے ساتھ کشمیر میں عام شہریوں کی مشکلات سے بھرے حالات کا عمدہ انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔

دی سٹوری آف انڈیا (2009)

'دی سٹوری آف انڈیا‘ چھ حصوں پر مشتمل ایک سیریز ہے، جسے مائیکل ووڈ نے بی بی سی اور پی پی ایس کے لیے تخلیق کیا ہے۔ اس سیریز میں انڈیا کی دس ہزار سالہ پرانی تہذیب و ثقافت کی تاریخ کو ایک عمدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں انڈس تہذیب کے ارتقا سے لے کر اس کے زوال کی کہانی بھی ملتی ہے اور قدیم دور سے لے کر دور حاضر کی سیاست اور معاشرت کی بھی۔


پرزانیہ (2007)

'پرزانیہ‘ فلم بھارتی ریاست گجرات میں سن دو ہزار دو کے فسادات کے کچھ اسباب واقعات سمیٹے ہوئے ہے۔ کہانی ایک ایسے دس سالہ بچے کے گرد گھومتی ہے، جو احمد آباد میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں اپنے گھر والوں سے بچھڑ جاتا ہے۔

پرزان نامی یہ لڑکا زرتشت مذہب کا ماننے والا ہوتا ہے، جو اپنی کمیونٹی کے ساتھ سکون سے رہ رہا ہوتا ہے لیکن فسادات کی وجہ سے اس کی زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے۔ اس فلم میں نصیر الدین شاہ اور ساریکا مرکزی کرداروں میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ یہ فلم سچے واقعات پر مبنی ہے اور اس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے، جو تب اس ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔


رنگ دے بسنتی (2006)

بالی وڈ کی مشہور فلم 'رنگ دے بسنتی‘ میں عامر خان نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ راکیش اوم پرکاش کی اس پیشکش کو فلم فیئر ایوارڈ میں بہترین فلم کا انعام ملا تھا۔ بالی وڈ کے روایتی انداز سے ہٹ کر بنائے جانے والی اس فلم میں موجودہ دور کے نئی دہلی میں رہنے والے ایسے پانچ دوستوں کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو نوآبادیاتی دور کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات سے پریشان ہیں۔

گاندھی (1982)

سر رچرڈ ایٹن بورو کی پیشکش 'گاندھی‘ رزمیہ سواںحی فلم ہے، جو موہن داس کرم چند داس کی سیاسی جدوجہد کو اجاگر کرتی ہے۔ اس فلم میں مہاتما گاندھی کی برٹش راج کے خلاف سیاسی کوششوں کو عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق گاندھی پر بنائی جانے والی فلموں میں سے یہ سب سے زیادہ بہترین فلم ہے۔


اس فلم میں گاندھی کا کردار بین کنگسلے نے نبھایا۔ فلم گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کو عمدگی سے بیان کرتی ہے اور ان کی زندگی کے متعدد پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔