پاکستان کی پہچان پشاوری چپل اب یورپ میں بھی مقبول

کرسچن لوبوٹاں جوتے بنانے والے مشہور فرانسیسی ڈیزائنر نے پاکستانی پشاوری چپل سے متاثر ہوکر اس جیسا ایک جوتا بنایا ہے۔ اس چپل کو پاکستانی قبائلی علاقوں کےکاریگروں کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان کی پہچان پشاوری چپل اب یورپ میں بھی مقبول
پاکستان کی پہچان پشاوری چپل اب یورپ میں بھی مقبول
user

ڈی. ڈبلیو

سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر ایک ماہ قبل لوبوٹاں نے ایک پوسٹ کی، جس میں ان کا کہنا تھا،’’جوتے کا ایک نیا ڈیزائن جلد متعارف کروایا جائے گا۔ وہ ڈیزائن پاکستانی پشاوری چپل سے سے مرعوب ہو کر بنایا گیا ہے۔‘‘

پاکستان کی پشاوری چپل کو خوبصورت کاریگری کی ایک مثال قرار دیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے لوبوٹاں کی اس نئی کاوش کو سراہا اور خوشی کا اظہار کیا۔جبکہ ناقدین کی تنقید اپنی جگہ قائم رہی۔

خریدو فروخت کے آن لائن ارادے فیشن ہاؤس کے مطابق،’’پاکستانی وزیر اعظم عمران خان یہی روایتی پشاوری چپل شوق سے پہنتے ہیں۔ اس چپل میں دھاتی بٹن جڑے جاتے ہیں۔ ‘‘

پاکستان میں یہ چپل طویل عرصےسے پشتونوں کی ایک قدیم پہچان ہے۔ عام مزدوروں سے لے کر ملکی سیاسی اشرافیہ تک ہرخاص وعام میں بہت مقبول ہے۔ اس چپل کو پہننے کے بعد پاؤں چمڑے کے دو پرتوں میں چھپ جاتا ہے۔ اس کے نیچے ایک منفرد ربڑ ہیل لگا ہوتا ہے، جوکہ پاؤں کو ایک مضبوط گرفت دیتا ہے۔

لوبوٹاں کے ڈیزائن کردہ جوتے کی قیمت 500 ڈالر جبکہ پاکستانی اس چپل کی قیمت 5.50 ڈالر کے برابر بنتی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر جب اس چپل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو، لوبوٹاں نےاس پوسٹ کو ڈیلیٹ کردیا اور لکھا،’’ہم کسی دوسرے ثقافت کی عکاسی نہیں کر رہے بلکہ یہ دوسرے کلچرز کے لیے محبت کا اظہار ہے۔‘‘

لوبوٹاں نے اپنے چاہنے والوں کو امن کا پیغام دیتے ہوئے کہا،’’دنیا اور اس میں موجود انفرادیت میرے کام کا بنیادی حصہ ہیں۔ میں نے پاکستانی روایات سے متاثر ہو کر جوتے کا یہ ڈیزائن بنایا ہے۔ میرا یہ ڈیزائن دراصل کاریگری، دستکاری، تاریخی روایات اور مختلف ثقافتوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔‘‘

2014 ء میں ایک برٹش ڈیزائنر پاؤل اسمتھ نے پاکستانی چپل جیسا ایک جوتا بغیر کسی پیشگی اطلاع کے متعارف کروایا تھا، جس پر پاکستانی میڈیا کی جانب سے اسمتھ کوشدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ احتجاج آن لائن اور الیکڑونک میڈیا پر کیا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */