ضیا محی الدین: تالیاں بج رہی ہیں، آنسو بہہ رہے ہیں

ضیا صاحب کی وفات پہ ایک دوست نے کہا کہ وہ بلاشبہ ایک علم والے اور بڑے آدمی تھے۔ لیکن کیا درست لہجے میں اردو بولنے کے علاوہ عوام میں ان کی مقبولیت کی کوئی اور وجہ بھی تھی؟

ضیا محی الدین: تالیاں بج رہی ہیں، آنسو بہہ رہے ہیں
ضیا محی الدین: تالیاں بج رہی ہیں، آنسو بہہ رہے ہیں
user

Dw

چلیے بھلا ہوا کسی نے پی آئی اے آرٹس اکیڈمی اور ناپا تھیٹر وغیرہ والی باتیں کر دیں، ان کا ڈیوڈ لین اور دیگر ہالی ووڈ کی فلموں میں اداکاری کا تذکرہ کر دیا مگر یہ تو کافی نہیں، یہ ہرگز کافی نہیں۔

ذرا سوچیں ان دیہات میں رہنے والوں کا، جنہیں کتاب یا لائبریری تو کیا کوئی پڑھا لکھا انسان بھی میسر نہیں تھا۔ روایتی دیہاتی، جن کی ماں ہانڈی روٹی اور باپ کھیتی باڑی کرتا ہے۔ ان کو اُردو شاعری کی سمجھ اور نثر میں دلچسپی پیدا کرنے کا کام اگر کسی اور نے ذمہ داری سمجھ کر کیا ہو تو ضرور بتایے گا۔


ایسا نہیں کہ ضیا صاحب درست لہجے میں اردو انگریزی پڑھ دینے کی وجہ سے ہی مقبول تھے۔ ویسے بھی اپنی بزم میں پڑھنا کیا پڑھنا ہے؟ اصل کام انتخاب تھا، جو وہ خاصی توجہ سے کرتے تھے۔ نامور شاعروں اور مقبول نثر نگاروں تک بات رہتی تو وہ پستہ قامت شخص ایک قدآور لیجینڈ نہ بنتے۔ اردو انگریزی ادب تک بھی بات رہتی تو بھی وہ ایک فنکار ہی رہتے مگر ضیا صاحب استاد تھے، جنہوں نے ادبی تربیت کا بیڑہ خود اپنے زور پہ اٹھایا تھا۔

وہ ہمیں ان لوگوں سے متعارف کراتے، جنہیں میں نے، آپ نے کتابوں میں نہ پڑھا ہوتا اور نہ ان کے بارےکبھی سنا ہوتا۔ کبھی وہ بیچم کی حسِ ظرافت سے روشناس کراتے ہیں، کبھی بیلی کی وکالت میں سیاہ اور سفید سے پار قہقہہہ برآمد کرواتے ہیں۔ ہر بزم میں کم سے کم دو نام ایسے ہوتے، جن سے پہلے ہم متعارف نہ ہوتے۔ پڑھت سے بڑھ کر ان کا انتخاب اور شاہ پاروں کی کھوج، یہ ان کا سب سے بڑا کمال تھا۔ وہ فنکار تھے، وہ استاد تھے اور وہ نسلوں کے ذوق کا رچاؤ کرنے والے تھے۔


پڑھ دینا شاید کوئی کمال نہیں مگر مکمل ذمہ داری کے ساتھ تحقیق کر کے نت نئے فن پارے عہدِ حاضر کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے یوں پڑھنا کہ ان کی دلچسپی آخری لفظ تک بندھی رہے، بہت بڑا کمال ہے۔ وہابی گھرانوں کے بچوں کی آنکھیں بھی اگر شامِ غریباں پہ نمناک ہو جائیں اور وہ ہر سال اسے سننے میں دلچسپی لیں اور باقاعدہ انتظار کریں تو یقیناً پڑھنے والا صرف پڑھ نہیں رہا، سحر میں مبتلا کر رہا ہے، لفظوں کا جادو پھونک رہا ہے، پڑھنے کا حق ادا کر رہا ہے۔

ان کی پڑھت کی بات کرنے والے ہم کیسے ہو سکتے ہیں، جنہوں نے لفظ کی طاقت اور حرمت کا رتی بھر بھی اگر علم لیا تو ان کی ذات سے لیا۔ بات صرف پڑھ دینے تک ہوتی تو ہم بھی شاید ان کو ایک مختلف طرز کا فنکار مان لیتے۔ لکھاری کے پاس اپنی تحریر میں رچاؤ ڈالنے کا کینوس بہت بڑا ہے۔


ایک دل آویز تحریر میں بھی نئی جہت کا رچاؤ یوں ڈالنا کہ منظر اور کردار سامنے آن کھڑے ہوں مگر اس طرز سے کہ تحریر سے توجہ ہٹ کر پرفارمنس پہ نہ جائے، یہ شاید کوئی بھی نہ کر پائے گا۔ پڑھت اور پرفارمنگ آرٹ کا منفرد اور متوازن آہنگ۔ انشا جی نے غفران چیچہ وطنی کا ذکر کیا تھا، ضیا صاحب نے اس غفران چیچہ وطنی میں روح پھونک کر اسے ہمارے سامنے کھڑا کر دیا۔ کہیے اگر باسودے کی مریم نے ہر مرتبہ آپ کی آنکھ کو نم نہ کیا ہو یا حسن کوزہ گر میں جہاں زاد سنتے ہی آپ نے تمنا کی وسعت کو تخیل کی آنکھ سے نہ دیکھ لیا ہو۔

گزشتہ 34 برس سے ایک روایت رہی ہے کہ ہر سال 31 دسمبر کو شام چھ سے آٹھ بجے علی آڈیٹوریم میں بزم ضیا کا انعقاد ہوتا ہے، جو باالخصوص نوجوانوں کو ادب سے جوڑنے کی ایک سعی ہے۔ کتاب، ادب اور شاعری سے دور نئی نسل کی دلچسپی اور ذوق کو خاص ملحوظِ خاطر رکھا جاتا اور اس بزم کا ایک تہائی حصہ اردو انگریزی ادبی مزاح کی پڑھت میں گزرتا۔ یہ ضیا صاحب کی اپنے تئیں ایک سعی تھی کہ نئی نسل مزاح کے راستے ہی سہی مگر ادب سے کسی طور جڑ جائے۔


زبان اور الفاظ کی حرمت کا ایسا پاس کہ بولنے والے سوچ سمجھ کر بولیں۔ طبعاً استاد تھے سو سہولت سے سبھی کو جھڑک دینے میں عار محسوس نہ کرتے تھے۔ ایسے ہی مزاج کے نوید ریاض صاحب بھی ہیں۔ کسی نوجوان لڑکی نے ضیا صاحب کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے اپنے ساتھی سے کہا، ''ایک پکچر کلک کر دیں‘‘۔ ضیا صاحب کی تو صرف بھنویں اچکیں، نوید ریاض صاحب کو گویا کسی نے بجلی کا جھٹکا لگا دیا، فوراً بولے، ''بی بی، زبان خواہ انگریزی بولیے یا اردو! لیکن درست بولیے۔ اردو میں انگریزی، انگریزی میں اردو۔۔۔ وغیرہ وغیرہ‘‘۔

ایک مرتبہ اپنی ہی محفل میں ضیا صاحب نے ایسی ایک ''غلطی‘‘ کی اور کہا، ''کرنل محمد خان (شاید کوئی اور نام ہو، وثوق سے نہیں کہہ سکتی) کا مزاح نہایت sophisticated ہے‘‘۔ پھر غالباً انہیں نوید ریاض صاحب کی موجودگی کا خیال آیا تو کہتے، ''میں نے لفظ sophisticated اس لیے استعمال کیا کیونکہ اس کا متبادل اردو زبان میں نہیں ہے‘‘۔


ضیا صاحب گورنمنٹ کالج میں پطرس بخاری کے شاگرد تھے، پطرس ریڈیو کی ریکارڈنگ میں اگر ایک لفظ کی ادائیگی میں اونچ نیچ کر دیتے تو نئے سرے سے ریکارڈنگ کرواتے۔ ایسے پرفیکشنسٹ استاد کا شاگرد ہونے کی ذمہ داری کا احساس ضیا صاحب کو خوب تھا، اسی لیے وہ اپنی بزم میں کسی لفظ پہ اٹکتے یا تلفظ کی ادائیگی میں اونچ نیچ ہو جاتی تو وہ اس پہ معذرت کرتے اور درست بھی کرتے۔ میرا سیٹھی نے تھیٹر میں ان کے ساتھ کام کیا اور ایک پوسٹ میں تذکرہ کیا کہ ضیا صاحب نے انہیں شاباش دی۔ جنہیں ضیا صاحب کی محفلوں کا حصہ بننے کا کبھی تجربہ ہوا ہو، انہیں خوب اندازہ ہے کہ یہ کتنی کٹھن کمائی ہے۔

جہاں کسی کا لکھا بھی ذوق کے پانی میں شوق کی لہریں نہ اٹھا پائے، وہاں اگر کسی کی پڑھت سے ہی طلب جاگ جائے تو پھر کم از کم بھی شکر گزاری لازم ہو جاتی ہے۔ شکر گزاری کا کم سے کم درجہ بھی یہ ہے کہ خاموش رہ لیا جائے۔ کچھ تو بات رہی ہو گی، جو یوسفی اس دنیا میں کہہ گئے کہ ضیا اگر کسی مردہ سے مردہ ادیب کی بھی تحریر پڑھ لے تو وہ زندہ ہوجاتا ہے اور یہ کہ روز محشر میرا نامہ اعمال ضیا محی الدین پڑھے گا۔ مشتاق احمد یوسفی کی رنگینیِ مزاج کے کیا کہنے، ساری زندگی ایک مرتبہ پھر سے جینا چاہتے ہیں، جو ایسی فرمائش کر گئے کہ ضیا ان کے اعمال کو پھر سے زندہ کر دے۔


سچ پوچھیے تو ہمیں بھی لگتا ہے کہ درست لہجے میں اردو انگریزی بولنے کے سوا ضیا صاحب میں کیا خوبی تھی؟ سال کے آخری دن بس ایک گھنٹہ انہوں نے بولنا ہی تو ہوتا تھا مگر وہ ان کا بولنا ہی تو سحر تھا۔ ہم میں سے کئی تو اس سحر میں ایسے جکڑے جاتے کہ ایک فن پارہ مکمل ہو چکا ہوتا مگر ہم اسی دنیا میں ہوتے تو اس ساحر کو اپنا چشمہ اتار کر یہ خاموش پیغام دینا پڑتا کہ میری آواز سے زندہ ہوئے الفاظ اب دوبارہ ورق پہ سو گئے ہیں، جب تک میں انہیں اگلی مرتبہ نہ اٹھاؤں۔

درست لہجے میں اردو انگریزی پڑھنے والے اس جادوگر کے جانے کا صدمہ ہم تو اٹھا لیں گے مگر افسوس یہ رہے گا کہ آنے والی نسلوں کے لیے ایسا کوئی نہیں ہو گا۔ مردہ لفظوں میں روح پھونکنے والا مسیحا اب نہیں آئے گا، ظلمت کے زمانے میں ضیا پاشی کرنے والا نہیں آئے گا۔


وہ ایک فرد نہ تھے، ایک استاد بھی نہ تھے، وی ایک ادارہ تھے، ایک مینارہ تھے، جنہیں ہر سال 31 دسمبر کو چھ بجے نوید ریاض موبائیل فون بند کرنے کی ہدایت کے بعد یوں بلاتے: خواتین و حضرات، آپ سب کی تالیوں میں ضیا محی الدین!

وہ سوٹ ٹائی پہنے سٹیج پہ کردار، مصرعے اور قہقہوں میں روح پھونکتے جاتے۔ سننے والوں کو ہوش تب آتی، جب وہ روسٹرم سے ہٹ کر جھکتے اور ہال میں تالیوں کی گونج کے علاوہ صرف ان کے زندہ کیے الفاظ رہ جاتے۔ کہانی ختم ہوگئی ہے اور تالیاں بج رہی ہیں۔ تالیاں بج رہی ہیں اور کچھ لوگوں کو احساس بھی نہیں کہ ان کے آنسو بہہ رہے ہیں۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔