سرکس کے فنکار کس حال میں ہیں؟

لکی ایرانی سرکس 1969ء سے پاکستان میں شہریوں کو تفریح مہیا کر رہا ہے۔ اس سرکس میں ملکی اور غیر ملکی فنکار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن کسی کو نہیں معلوم کے انہیں آج کل کن حالات کا سامنا ہے؟

لکی ایرانی سرکس کے فنکار کس حال میں ہیں؟
لکی ایرانی سرکس کے فنکار کس حال میں ہیں؟
user

Dw

’’یوں تو 12 شیر میرے ایک اشارے پر اپنی چال بدل لیتے ہیں لیکن میں پھر بھی احتیاط کرتا ہوں کیونکہ یہ ہیں تو حیوان۔ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ مجمع کو دیکھ کر شیر بپھر نہ جائے۔ کئی بار ایسے واقعات ہوئے ہیں، جب شیر نے دبوچ لیا لیکن جب تک رب نہ چاہیے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ سرکس اگر ہو جائے تو کرتب ہے اور اگر نہ ہو تو حادثہ! یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا ہے جو یہ شیر میرے تابع ہیں۔‘‘

یہ بتایا اقبال خان نے، جو 35 برس سے لکی ایرانی سرکس کا حصہ ہیں اور سرکس کے ہر کرتب میں ماہر ہیں۔ شیروں کے ساتھ کرتب دیکھا کر شائقین کے دل جیت لیتے ہیں۔ سرکس کے تمام ساتھی انہیں ماسٹر جی کے نام سے پکارتے ہیں۔


اقبال خان کا خاندان بھی اسی سرکس سے وابستہ ہے۔ ان کی اہلیہ ممومی گل بھی سرکس کی اسٹار رہ چکی ہیں۔ دونوں کی شادی اسی سرکس میں ہوئی۔ اقبال خان کے بڑے بیٹے بلال حسین خان بھی شیر دل نوجوان ہیں، جنہوں نے والد کی طرح شیروں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ بلال کو'' کنگ آف لائن‘‘ کہا جاتا ہے۔

لکی ایرانی سرکس 1969ء سے پاکستان میں لائیور انٹرٹینمنٹ فراہم کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کے قصبوں میں آج بھی اپنے روایتی انداز میں سجایا جاتا ہے۔ اس سرکس میں فنکاروں کی اب تیسری نسل پرفارم کر رہی ہے۔ جہاں پر میلے اور عرس ہوتے ہیں، وہاں لکی ایرانی سرکس کا بڑا خیمہ بھی لگ جاتا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی فنکار 36 مختلف کرتب دیکھا کر شائقین کو محظوظ کرتے ہیں۔ جوکر کی مسکراہٹ یا جادوگر کے ہاتھوں کا کھیل، فلائنگ ٹراپیز ہو یا موت کا کنوں، نائف تھرو یا شیر کو گلے لگانا، یہ جانباز عوام کو تفریح پہنچانے کے لیے ہر خطرے سے کھیل جاتے ہیں۔


ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے رنگ ماسٹر بلال نے بتایا،''میں نے جب ہوش سنبھالا تو خود کو شیروں کے بیچ پایا۔ میں اور میرے والد ان شیروں اور چیتوں کو سرکس کے لیے تربیت دیتے ہیں۔‘‘بلال بتاتے ہیں کہ ان کے پاس آج کل 6 شیر ہیں، جن میں 2 نر اور 4 مادہ ہیں،''ان میں سب سے خطرناک اور بہت طاقتور سلطان ہے جس پر پروگرام کے آخر میں سواری کرتا ہوں اس کے علاوہ پائپ کے ساتھ گوشت کا ٹکڑا لگا کر اپنے منہ میں رکھتا ہوں، جسے شیر آ کر کھاتا ہے۔ یہ کافی خطرناک ہوتا ہے کیونکہ شیر گوشت دیکھ کر پاگل ہو جاتا ہے، میرے اور میرے والد کے علاوہ آج تک کسی نے یہ کرتب نہیں دیکھایا۔‘‘

سرکس کے شائق عمر سجاد نے بتایا، ''ہمارے علاقے شاہ کوٹ میں لکی ایرانی سرکس دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ یہاں سنگ میلہ لگا ہوا ہے۔ لکی ایرانی سرکس کے کرتب دیکھ کر بچے بہت محظوظ ہوئے ہیں، شہر میں اور کوئی خاص تفریح نہیں ہے، ایسے میں لکی ایرانی سرکس ہمارے لیے بہترین انٹرٹینمنٹ ثابت ہوا ہے۔‘‘


پاکستان میں اس وقت لکی ایرانی سرکس کے دو یونٹ کام رہے ہیں، جن میں تقریبا 6 سو افراد (فی یونٹ 300 ) برسرِ روزگار ہیں۔ یہ لوگ کئی کئی برسوں سے لکی ایرانی سرکس سے وابستہ ہیں اور یہاں ایک چھوٹا شہر آباد کر رکھا ہے، جہاں پر یہ افراد اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہیں یہاں خوراک، بجلی، پانی، تعلیم اور طبی سہولیات بلامعاوضہ فراہم کی جاتی ہے۔ سرکس کے اردگرد سکیورٹی کا بھی بہترین انتظام کیا جاتا ہے۔

کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کو متاثر کیا وہی عوام کو انٹرٹینمنٹ فراہم کرنے والا یہ شعبہ بھی کافی متاثر ہوا۔ شہروں میں لگنے والے میلوں میں پابندی عائد کر دی گئی، جس کے باعث لکی ایرانی سرکس بھی بند کر دیا گیا۔


سرکس میں جوگر کر کردار نبھانے والے محمد عرفان بتاتے ہیں،''کورونا کے دوران ہم سب نے بہت مشکل وقت کاٹا۔ سرکس کے فنکار کو کچھ اور تو آتا نہیں ہے۔ سرکس بند ہو گیا تھا مالکان بھی پریشان تھے لیکن پھر بھی ہمارا خیال رکھتے تھے۔ اب سرکس کی رونقیں دوبارہ بحال ہو رہی ہیں ہم سب بہت خوش ہیں۔‘‘

لکی ایرانی سرکس کو دیکھنے والوں کی تعداد 4 کروڑ سے زائد ہے، ملک میں سکیورٹی کے باعث سرکس لگانے کا دائرہ کار بھی کچھ سالوں سے محدود کر دیا گیا ہے۔


53 برسوں سے کامیابی کے ساتھ پاکستان کے میلوں کی رونق کو دوبالا رکھنے والے لکی ایرانی سرکس کے سی ای او میاں مظہر نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہم پورے پاکستان میں اپنے سرکس کے ذریعے لوگوں میں خوشیاں بکھرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ہمیں وزارت داخلہ کی جانب سے ملک میں سرکس لگانے کی اجازت ہے۔ سکیورٹی کے باعث سرکس لگانے سے پہلے وہاں کی انتظامیہ سے ملنا ہوتا ہے۔ چند سال قبل سکیورٹی کے باعث حالات ایسے بھی آئے کہ ہم سوچ رہے تھے کہ اسے بند کر دیں لیکن لوگوں کا پیار محبت اتنا تھا کہ ہم اسے بند نہیں کر سکے۔ سرکس کی حفاظت کے لیے ذاتی گاڈز بھی رکھے گئے ہیں، میٹل ڈیٹیکٹرز ہیں ہمارے سرکس مکمل طور پر محفوظ ہے۔ رمضان بھی سرکس لگتا ہے تراویح کے بعد ایک شو ہوتا ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ کورونا کے باعث سرکس کو بھی کافی نقصان پہنچا، میلے لگنا بند ہو گئے تھے۔ ان کے بقول سرکس کے ملازمین اور انتظامیہ اس کڑے وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ تھے،''اب آہستہ آہستہ رونقیں بحال ہو رہی ہیں۔ لوگ آج بھی پہلے ہی کی طرح لکی ایرانی سرکس شوق سے دیکھتے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔