ہجوم کی تصویر کشی اور سینما کا کردار

ہجوم کی سرگرمیوں کے بارے میں ہم کتابوں اور رسالوں میں پڑھتے ہیں اور اپنے تصور میں ان کے اعمال کو دیکھتے ہیں۔ اب بہت سی ایسی فلمیں بنی ہیں، جن میں ہجوم کو اور ان کی کارروائیوں کو پردہ پر دکھایا گیا ہے۔

ہجوم کی تصویر کشی اور سینما کا کردار
ہجوم کی تصویر کشی اور سینما کا کردار
user

Dw

ان میں کسانوں کی بغاوتیں ہیں، مزدوروں کے ہنگامے ہیں اور سیاسی کارکنوں کے جلسے جلوس اور نعرے ہیں۔ جب ناظرین ان کو اسکرین کے پردے پر دیکھتے ہیں تو وہ ہجوم کو عملی طور پر ان کی اصل شکل میں سرگرم پاتے ہیں۔ وہ ان کے چہروں پر ہونے والے تاثرات اور ان کے اندرونی جذبات سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ یہ فلم کے ڈائریکٹر اور ایکٹنگ کرنے والوں کا کمال ہوتا ہے کہ وہ ہجوم کے کردار کی پوری پوری تصویر کشی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ہجوم کی تاریخ پڑھنے سے زیادہ اس کو فلموں میں دیکھ کر ان کے اندرونی جذبات سے آگاہی ہوتی ہے۔

ہجوم دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو کسی خوشی اور فتح کے موقع پر اپنے حکمرانوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔ دوسرا ہجوم وہ ہوتا ہے، جو غیض و غضب کے عالم میں لوٹ مار کرتا ہے۔ زمینداروں اور اُمراء کی حویلیوں پر حملے کرتا ہے۔ توڑ پھوڑ اور آگ لگا کر تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں ہجوم جب اکٹھا ہوتا ہے تو وہ ایک طاقت بن کر اُبھرتا ہے۔ یہاں ہم ہالی ووڈ کی مشہور فلم ''قلوپطرہ‘‘ کا ذکر کریں گے۔


رومی سلطنت میں یہ رواج تھا کہ جب کوئی فاتح جنرل مال غنیمت کے ساتھ واپس آتا تھا تو سینٹ سے فتح کے جلوس کی اجازت مانگتا تھا۔ جب جولیس سیزر مصر کی فتح کے بعد اور قلوپطرہ سے شادی کرنے کے بعد واپس آیا تو اس نے ایک شاندار جلوس نکالا۔ فلم میں اس جلوس کی شان و شوکت کو بتایا گیا ہے۔ قلوپطرہ ایک گاڑی پر سوار اپنی خوبصورتی کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز تھی۔

سڑک کے دونوں جانب ہزاروں لوگ اس منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور خود کو رومی سلطنت کا حصہ سمجھ کر اس کی طاقت پر فخر کر رہے تھے۔ بعد میں جولیس سیزر کے جانشین اوکٹے وژن نے بھی مصر کی فتح کے بعد قلوپطرہ کو بطور ٹرافی اپنے جلوس میں شامل کرنا چاہا لیکن جب اس نے خود کشی کر لی تو اس کا مجسمہ بنوا کر اسے اپنے جلوس میں شامل کیا۔


ہالی ووڈ نے رومی سلطنت کی سوسائٹی پر کئی فلمیں بنائی ہیں۔ ان فلموں میں عوام کے ہجوم کو مختلف شکلوں میں دکھایا گیا ہے۔ لوگوں کی آبادی اس لیے بڑھ گئی تھی کیونکہ اُمراء نے اپنے کھیتوں میں غلاموں سے کاشت کرانا شروع کی تو کسان بیروزگار ہو کر روم کے شہر آگئے۔ بیروزگار لوگوں کا یہ ہجوم لوٹ مار بھی کرتا تھا۔

وہ جرائم کا بھی مرتکب ہوتا تھا اس لئے رومی حکومت نے ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی طریقے سوچے۔ ایک یہ تھا کہ حکومت کی جانب سے ہر شہری کو راشن ملتا تھا۔ اگر کبھی راشن ملنے میں دیر ہو جاتی تھی تو ہجوم ہنگامہ کر دیتا تھا۔ لوگوں کو مصروف کرنے کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ ان کے لیے تفریح کے ذرائع تلاش کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے کلوزیم میں جنگجوؤں کے مقابلے ہوتے تھے۔


ان میں سے جو جنگجو شکست کھا جاتا تھا، دیکھنے والا ہجوم یہ فیصلہ کرتا تھا کہ آیا اسے مار دیا جائے یا زندہ رکھا جائے۔ یہاں پر ہی شیروں کے سامنے مجرموں اور مسیحیوں کو کھڑا کر دیا جاتا تھا، جنہیں وہ چیر پھاڑ کر کھا جاتے تھے۔ مجمع اس خونریزی کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔

یہاں رتھوں کی ریس بھی ہوتی تھی جیسا کہ فلم Binhur میں دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انتخاب کے وقت مختلف امیدوار ہجوم کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مخالف امیدوار کو ڈرانا دھمکانا اور بیلٹ بکس کو توڑنا ان کارروائیوں میں شامل تھا۔ ہجوم کی ان کارروائیوں کو ہم موجودہ زمانے میں بھی دیکھتے ہیں۔


موجودہ زمانے میں ایک تو ہجوم کو انقلابات میں متحرک دیکھتے ہیں۔ دوسرے فلموں کے علاوہ ڈاکومنٹریز یا ٹیلی ویژن کی نیوز کے درمیان ہجوم اور اس کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہیں۔ مثلاً روسی انقلاب 1917ء پر مشہور فلم ڈائریکٹر سرگئی آئزن شٹائن نے Battleship Potemkin بنائی تھی۔ فلم کے شروع میں سمندر کی لہروں کو چٹانوں سے ٹکراتا ہوا دکھایا گیا ہے۔

یعنی عوام کا ہجوم طاقت سے مقابلہ کر رہا ہے۔ جہاز کے ملاح بغاوت کرتے ہیں، جسے طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر آخر میں ہجوم کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس فلم میں روسی انقلاب اور عوامی جدوجہد کو بتایا گیا ہے۔ روسی انقلاب پر اور بھی کئی فلمیں بنی ہیں لیکن ان میں ایک فلم (October: Ten Days that shook the world) قابل ذکر ہے۔


دستاویزی فلموں کے ذریعے بھی ہجوم کی کارروائیوں کو دکھایا گیا ہے۔ مثلاً جب چین میں Tiananmen Square پر جمہوریت کے حق میں مظاہرے ہوئے تو ایک بڑی تعداد جوانوں کی وہاں جا کر جمع ہو گئی۔ دنیا بھر کے ٹی وی چینلز نے اس ہجوم کو فلمایا لیکن آخر میں چینی حکومت نے ٹینکوں اور فوج کے ذریعے اس ہجوم کو کچل دیا۔

روس کے زوال کے بعد مشرقی یورپ کی کمیونسٹ حکومتوں کو بھی عوامی ہجوم کے مظاہروں نے اُلٹ کر رکھ دیا اور آمرانہ حکومتوں کا خاتمہ کر کے جمہوری طرز حکومت کا نفاذ کیا۔ حال ہی میں عرب اسپرنگ میں ہونے والے مظاہروں میں مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک ہلچل تو ضرور تھی۔ مصر میں ہجوم کے احتجاج پر حسنی مبارک کو جانا پڑا مگر پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر کے عوامی احتجاج کو ختم کیا اور حسنی مبارک کو قید سے آزاد کیا۔


ہجوم کو جب سینما اور دستاویزی فلموں میں دکھایا جاتا ہے تو دیکھنے والے ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں ایک جانب ہجوم کی طاقت کا احساس ہوتا ہے تو دوسری جانب ریاست کی فوج اور پولیس کے عمل کو بھی دیکھتے ہیں، جو مظاہرین کو بے رحمی اور سختی کے ساتھ منتشر کر کے ان کی طاقت کو توڑ دیتے ہیں۔

اب یہ فلم ڈائریکٹروں اور دستاویزات بنانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ ہجوم سے ہمدردی رکھتے ہیں یا ہجوم کو انتشار کرنے والا مجمع سمجھتے ہیں۔ جب ہجوم کسی نظریے کی بنیاد پر جمع ہوتا ہے اور آمرانہ حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرتا ہے تو وہ تاریخ کو بدلتا ہے۔ اگر وہ ناکام بھی ہو جاتا ہے تو ورثے میں اپنی جدوجہد کی داستانیں چھوڑ جاتا ہے، جو آنے والوں کو حوصلہ دیتی ہیں کہ وہ خاموش نہ رہیں اور مزاحمت کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کریں۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔