برلن کی آرٹ گیلریاں اور قبرستان

جرمن دارالحکومت برلن کی’ٹریپٹو آٹیلیئرز‘ نامی آرٹ اسٹوڈیوز کی عمارت کے باہر ایک قبرستان سا بنا دیا گیا ہے۔ اس عمارت پر ‘مسمار‘ اور ‘بے دخل‘ کیے جانے کے الفاظ درج ہیں۔

برلن کی آرٹ گیلریاں اور قبرستان
برلن کی آرٹ گیلریاں اور قبرستان
user

ڈی. ڈبلیو

'ٹریپٹو آٹیلیئرز‘ نامی آرٹ اسٹوڈیوز کے باہر یہ چھوٹا سا قبرستان ان آرٹسٹوں، مجسمہ سازوں اور فوٹر گرافروں کی تخلیق ہے، جن کے پاس اس عمارت کے ختم ہونے کے بعد اپنا کام جاری رکھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو گی۔

اکتالیس سالہ لائڈیا پاشے بھی ان فنکاروں میں شامل ہیں، جن کا روز گار اس عمارت سے جڑا ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں،''یہ چھوٹا سا قبرستان اس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش ہے کہ یہاں کیا ہونے والا ہے۔ یہاں کچھ ختم ہونے والا ہے اور آخر میں ایک صلیب بھی باقی نہیں بچے گی۔‘‘ اس عمارت میں کام کرنے والے تمام تیس تخلیق کاروں کو عمارت خالی کرنے کے احکامات مل چکے ہیں۔


یہ لوگ 2013ء سے'ٹریپٹو آٹیلیئرز‘ سے منسلک ہیں۔ انہیں کہا گیا ہے کہ وہ مارچ 2020ء تک یہ جگہ خالی کر دیں۔ اس کے بعد اس عمارت کو ڈھا دیا جائے گا اور اس مقام پر ایک پانچ منزلہ بلڈنگ تعمیر کی جائے گی۔

برلن میں پروفیشنل ویژوئیل آرٹسسٹ ایسوسی ایشن ( BBK ) نے بتایا ہے کہ شہر میں ہر سال ساڑھے تین سو تک آرٹ اسٹوڈیوز بند ہو رہے ہیں اور اس بندش کی وجہ بڑھتے ہوئے اخراجات ہیں۔ برلن میں گزشتہ دہائی کے مقابلے میں کرائے دو گنا ہو چکے ہیں۔ یہ شہر 'آرٹسٹوں کی جنت‘ کے نام سے پہنچانا جاتا ہے اور خدشہ ہے کہ اگر صورتحال یہی رہی تو برلن سے اس کا یہ اعزاز بھی چھن جائے گا۔


1989ء میں دیوار برلن کے منہدم ہونے کے ساتھ ہی دنیا بھر سے فنکاروں کی برلن آمد کے سلسلے میں تیزی آئی تھی۔ ان آرٹسٹوں نے صنعتی علاقوں میں خالی ہونے والی کئی عمارتوں میں اپنے ڈیرے ڈالے اور اس شہر کے حسین و پرکشش مناظر کو اپنی تخلیقی صلاحتیوں کے لیے استعمال کیا۔

مغربی یورپ کے دیگر دارالحکومتوں کے مقابلے میں برلن ایک بہت ہی سستا شہر تھا اور نوجوان فنکاروں کی جانب سے اس شہر کو منتخب کرنے کی یہ ایک بڑی وجہ بھی یہی تھی۔


برلن کے وزیر ثقافت کلاؤس لیڈرر اس مسئلے سے بخوبی واقف ہیں،''دکانوں اور دیگر کمرشل علاقوں کے کرائے بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور یہی شہر سے آرٹ اسٹوڈیوز کے غائب ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ ہم اتنی تیزی سے تبدیل ہونے والی صورتحال کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہمیں آج سے سات سے دس سال پہلے ہی اس بارے میں حکمت عملی تیار کر لینی چاہیے تھی۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ فنکاروں، ثقافتی مراکز اور آرٹ اسٹوڈیوز کے بغیر برلن کیسا ہو گا؟ کئی تخلیق کاروں نے کہا کہ پھر یہ بھی دوسرے دارالحکومتوں کی طرح کا ایک شہر ہی رہ جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔