ورلڈ کپ میں دھوم مچا دینے والے محمد سمیع کے بے پناہ درد اور حوصلے کی کہانی

سری لنکا کے خلاف 5 وکٹیں لے کر سمیع ورلڈ کپ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے انڈین بولر بن گئے، ان کی زندگی کافی تکلیف دہ رہی اور بے پناہ درد ملنے کے باوجود وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں

<div class="paragraphs"><p>وکٹ لینے کے بعد ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے محمد سمیع</p></div>

وکٹ لینے کے بعد ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتے محمد سمیع

user

آس محمد کیف

سری لنکا کے خلاف 5 وکٹیں لے کر محمد سمیع ظہیر خان اور جواگل سری ناتھ کا مشترکہ ریکارڈ توڑتے ہوئے کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ میں ہندوستان کے لیے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے بولر بن گئے۔ محمد سمیع کو پہلے 4 میچوں میں ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا لیکن انہوں نے صرف 3 میچوں میں 14 وکٹیں لے کر ورلڈ کپ میں دھوم مچا دی ہے۔ اس سے پہلے سمیع کی زندگی کافی تکلیف دہ رہی ہے اور انہیں جو بے پناہ درد ملا اس کے بعد وہ اور بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

مغری یوپی کے امروہہ سے تعلق رکھنے والے محمد سمیع اب ملک کے ہیرو ہیں۔ آج ہر شخص ان کی عزت کرتا ہے۔ آپ اسے صرف ایک کامیاب کرکٹر کے طور پر نہیں لے سکتے، وہ ایک عظیم کھلاڑی ہے لیکن وہ ایک ہیرو ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسی جدوجہد کا سامنا کیا ہے جو منفرد ہے۔ ایسا درد کسی اور کرکٹر کی کہانی میں نہیں ہے۔ بہت سے کھلاڑی مالی مشکلات سے نبردآزما ہو کر کامیابی کی سیڑھی چڑھ چکے ہیں لیکن سمیع جس طرح مشکل خاندانی حالات اور سخت پروپیگنڈے سے باہر آئے وہ یقیناً ایک تحریک بن گیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>محمد سمیع کے والد توصیف علی / Getty Images</p></div>

محمد سمیع کے والد توصیف علی / Getty Images

کھیل اپنی جگہ ہے اور بہترین کارکردگی کھلاڑی کا پسندیدہ زیور ہے لیکن گھر کے اندر سے لے کر کھیل کے میدان تک ناانصافی کی علامت بننے والے محمد سمیع کے ساتھ نہ کھڑے ہوئے تو آپ انسان ہونے کا حق کھو چکے ہیں۔ اس شخص کی پوری زندگی پریشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ سمیع کے والد توصیف علی گاؤں کی کرکٹ میں بہت مقبول تھے، تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے بیٹے سمیع کو یہ کھیل وراثت میں ملا ہے۔ توصیف عالی کو کبھی کسی بڑے پلیٹ فارم پر اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع نہیں ملا، لہذا انہوں نے خواب دیکھا کہ ان کا بیٹا یہ کارنامہ انجام دیگا۔ ایک دن توصیف علی اپنے بیٹے محمد سمیع کو مراد آباد اسٹیڈیم میں کرکٹ کوچ بدر الدین کے پاس لے گئے۔ یہاں انہوں نے ایک ماہر کی نگرانی میں باؤلنگ کی پریکٹس شروع کی۔ بدر الدین نے محسوس کیا کہ انہوں نے جتنے بھی تیز گیند باز دیکھے ہیں سمیع ان میں سب سے قابل ہیں اور وہ جلد ہی ہندوستانی قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہو جائیں گے۔ نئی گیند کو کئی سال پرانا کرنے کے باوجود محمد سمیع قومی کرکٹ ٹیم تو دور کی بات، یوپی کی رنجی ٹیم میں بھی جگہ نہ بنا سکے۔ وجہ یوپی کرکٹ میں سیاست اور سمیع کا سادہ پس منظر تھا۔


مرادآباد کے لوگوں کا کہنا ہے ’’کوچ بدر الدین اپنے قریبی لوگوں کو بتاتے ہیں کہ سمیع جس بھی آزمائش میں جاتے تھے اس میں وکٹیں توڑ دیتے تھے۔ ان کی گیند سیدھے وکٹ میں لگتی تھی اور آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بولڈ زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن بہتر ہونے کے باوجود انہیں منتخب نہیں کیا گیا۔ ہر بار مایوس ہوتے اور خاموش رہتے لیکن جیسے ہی وہ پریکٹس میں واپس آتے تو ایسی خطرناک گیندبازی کرتے کہ ہمارے وکٹ توڑ ڈالتے!‘‘ جب ناانصافی کا سلسلہ نہیں تھما تو ایک دن بدر الدین نے توصیف علی کو فون کیا اور صاف کہہ دیا کہ ’’سمیع یوپی کے لیے نہیں کھیل سکے گا، تمہیں اسے کہیں اور بھیجنا پڑے گا۔‘‘ توصیف احمد اپنے بیٹے کو کسی بھی قیمت پر کامیاب دیکھنا چاہتے تھے، لہذا انہوں نے بدر الدین کے مشورے پر سمیع کو مغربی بنگال بھیج دیا۔ یہاں سمیع ایک بار پھر ٹوٹ گئے کیونکہ وہ ایک عام مزدور کسان گھرانے سے تھے اور انہیں ایک انجان شہر میں کھانے اور رہائش کا انتظام کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ صورتحال مراد آباد میں نہیں تھی کیونکہ یہ شہر امروہہ سے صرف 20 کلومیٹر دور ہے۔ مرادآباد جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ سمیع کے گاؤں میں کھیل کا میدان نہیں تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس درد کو سمجھتے ہوئے سمیع نے خود اپنے گاؤں میں اکیڈمی شروع کی ہے اور ایک اچھا کھیل کا میدان بنایا ہے۔

کولکاتا میں سمیع کے پاس نہ چھت تھی اور نہ ہی زمین، یہاں انہوں نے موہن باغان کلب کے لیے کھیلنا شروع کیا۔ امروہہ میں والد تھے، مراد آباد میں بدر الدین ان کے سرپرست بنے اور کولکاتا میں ان کی ملاقات دیوداس سے ہوئی، انہوں نے اس لڑکے کی قابلیت پر رشک کرتے ہوئے انہیں اپنے گھر پر پناہ دی۔ سمیع ایڈن گارڈنز پر حاوی ہونے لگے، شہرت بنگال ٹائیگر سورو گنگولی تک پہنچی اور سمیع نے سورو گنگولی کو بولڈ کر دیا۔ سورو گنگولی نے کوئی وقت ضائع نہیں کیا اور فوری طور پر سمیع کو بنگال رنجی ٹیم میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد سمیع ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں آئے اور انہیں دنیا کے بہترین سیم بالر کے طور پر شناخت حاصل ہوئی۔


سمیع کی ایک اور کہانی بھی ہے جو ان کی اہلیہ حسین جہاں سے وابستہ ہے۔ خاندانی اختلاف ٹیلنٹ کو کس طرح سے برباد کر سکتے ہیں سمیع کی یہ کہانی اس کی زندہ مثال ہے۔ جس لڑکی سے انہوں نے محبت کی اور گھر والوں کی مخالفت کے باوجود شادی کر لی، اس نے انہیں سرِبازار شرمندہ کیا۔ سمیع پر طرح طرح کے بیجا الزامات عائد کئے گئے، اس کے باوجود وہ خاموش رہے اور اپنا غصہ میدان پر نکالتے رہے۔ کرکٹ ماہرین آپ کو بتائیں گے کہ انتہائی مہلک سیم فاسٹ باؤلر ہونے اور بہترین اعدادوشمار کے باوجود ٹیم سلیکشن میں ان کے ساتھ مسلسل غیر منصفانہ سلوک کیا گیا۔ صرف ورلڈ کپ کی بات کریں تو 2015 میں انہوں نے 17 وکٹیں لیں، 2019 میں انہیں پہلے چار میچوں میں نہیں کھلایا گیا۔ اس کے بعد جب انہیں کھلایا گیا تو انہوں نے ہیٹ ٹرک کی اور چار میچوں میں 14 وکٹیں حاصل کیں۔ موجودہ 2023 کے ورلڈ کپ میں بھی انہیں چار میچوں میں بینچ پر رکھا گیا اور جب ایک کھلاڑی زخمی ہوئے تو انہیں موقع ملا۔ پھر انہوں نے صرف 3 میچوں میں 14 وکٹیں حاصل کر کے اپنا لوہا منوا دیا۔

دراصل، سمیع ایک مختلف کردار کے شخص ہیں، انہیں جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنا ہی ابھر جاتے ہیں۔ انہیں 2013 میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں منتخب کیا گیا تھا اور اس کے بعد ان کے والد توصیف علی کا انتقال ہو گیا۔ سمیع قبرستان تک اپنے والد کو کندھا دیتے رہے۔ تدفین کے بعد پھاوڑا لے کر خود قبل پر مٹی ڈالنے لگے۔ اس کے بعد وہ گھنٹوں ماں سے دور نہیں ہوئے اور کئی دنوں تک گھر سے باہر نہیں آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سمیع کو اپنے درد کا اظہار کرنا نہیں آتا اور وہ اکیلا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پوری دنیا سے آوازیں آ رہی ہیں، براہ کرام سمیع کے ساتھ مزید ناانصافی نہ کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔