محمد شامی اب اپنا غصہ حَسین جہاں پر نہیں میدان پر نکالیں گے
حَسین جہاں کے الزامات نے محمد شامی کو یقیناً جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا لیکن اپنی ثابت قدمی کی وجہ سے وہ خود کو میچ فکسنگ سے پاک صاف باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے۔

’’گزشتہ 15-10 دن میرے لیے مشکل بھرے رہے۔ خصوصاً میچ فکسنگ کے الزام نے مجھے بہت ٹینشن میں ڈال دیا تھا۔ حسین جہاں نے مجھ پر بہت ہی گھناؤنے الزامات عائد کیے ہیں۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ میں اپنی بے گناہی ثابت کروں گا۔ اب میں اپنے غصے کو کرکٹ کے میدان پر نکالوں گا۔ بی سی سی آئی سے کلین چٹ ملنے کے بعد مجھے میدان میں اچھی کارکردگی کرنے کا جو حوصلہ ملا ہے، اس کا بھرپور مظاہرہ کروں گا۔ یہ میرے لیے ایک بڑی جیت ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں بقیہ الزامات کو بھی میں جھوٹا ثابت کروں گا۔‘‘
یہ بیان ہے ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں تیز گیندبازی کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جانے والے محمد شامی کی۔ ان پر جب مارچ 2018 کے پہلے ہفتہ میں ان کی بیوی حسین جہاں نے ذہنی و جسمانی استحصال کرنے، کئی لڑکیوں کے ساتھ ناجائز رشتہ رکھنے، دبئی میں میچ فکسنگ سے متعلق کسی سے پیسہ لینے جیسے یکے بعد دیگرے کئی الزامات عائد کر دیے، یہاں تک کہ ان کے بڑے بھائی پر عصمت دری تک کا کیس درج کرا دیا تو شامی کا پریشان ہونا اور ٹینشن میں آنا لازمی تھا۔ لیکن تعریف کرنی ہوگی ان کے حوصلے کی کہ انھوں نے ہار نہیں مانی اور جب بی سی سی آئی کے سنٹرل کانٹریکٹ میں شامل ہونے کے لیے انھیں ’اینٹی کرپشن یونٹ‘ کے سوالوں کا جواب دینا پڑا، تو انھوں نے بلاجھجک اپنی بات صفائی کے ساتھ ان کے سامنے رکھ دی۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے، شامی کے سنٹرل کانٹریکٹ بورڈ نے منظوری دے دی اوراب وہ کرکٹ کے میدان پر اترنے کے لیے تیار ہیں۔
کرکٹ کے میدان پر تو شامی کی واپسی اب طے ہے، لیکن حَسین جہاں نے ان پر جو بھی الزامات لگائے ہیں اس کو وہ کبھی نہیں بھول پائیں گے۔ ویسے بھی انھوں نے حَسین جہاں کے ذریعہ الزامات عائد کیے جانے کے بعد بہت صبر کیا اور جب الزامات ان کے والدین اور بھائی پر لگائے گئے تو پانی سر سے اوپر چلا گیا اور محمد شامی نے عدالت کا رخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اپنے بھائی پر عصمت دری کا کیس کیے جانے کے بعد جب انھوں نے اس کی بے گناہی کا ثبوت کولکاتا پولس کے سپرد کیا تو اس کے بعد سے ہی اندازہ ہو گیا کہ اب شامی ’آمنے-سامنے‘ کا موڈ بنا چکے ہیں۔ شامی کے اس قدم سے پہلے حَسین جہاں نے اپنے شوہر کو برباد کر دینے، عدالت میں کھینچنے اور کبھی طلاق نہ دے کر اپنے اوپر ہوئے ظلم کے خلاف لڑنے کا خوب ڈھنڈورا پیٹا تھا لیکن 22 مارچ کے بعد معاملہ کچھ بدل سا گیا۔

کتنی دلچسپ بات ہے کہ جس حَسین جہاں نے
- ’’محمد شامی کی کئی ساری گرل فرینڈس ہیں اور وہ جہاں بھی جاتے ہیں وہاں لڑکیوں کے ساتھ جسمانی رشتہ قائم کرتے ہیں۔‘‘
- ’’وہ (شمی) بہت بڑا فلرٹ ہے۔ میں آخری سانس تک اسے طلاق نہیں دوں گی بلکہ اس کے خلاف میرے پاس سبھی ثبوت ہیں اور میں شمی کو جلد ہی عدالت میں کھینچ کر لے جاؤں گی۔‘‘
- ’’وہ جنوبی افریقہ سے دبئی آیا، وہاں لڑکی سے ملا۔ وہ الیشبا نام کی پاکستانی لڑکی ہے۔ دبئی میں اس کے ساتھ ہی ہوٹل میں ٹھہرا۔ لڑکی کے ساتھ ایک ہی روم میں رہا، رومانس کیا اور اس کے بعد یہاں واپس آ کر میرے ساتھ مار پیٹ کی۔‘‘
- ’’اب میرے اور شامی کے درمیان صلح کے سبھی راستے بند ہو چکے ہیں اور اب وہ شامی پر لگائے گئے الزامات کو صحیح ثابت کر کے ہی دَم لیں گی۔‘‘
جیسے بیانات دیے تھے، اب وہ کہتی ہیں کہ ’’اگر شامی معافی مانگ لیں تو وہ بیٹی کی خاطر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ اتنا ہی نہیں، انھوں نے تو میچ فکسنگ والے الزام پر بھی ’یو-ٹرن‘ لے لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شامی پر انھوں نے کبھی میچ فکسنگ کا الزام لگایا ہی نہیں۔ ان دو بیانات کے بعد حَسین جہاں کا جھوٹ پر مبنی عمارت جیسے منہدم ہو گئی ہو۔ جو انگلیاں پہلے محمد شامی کی طرف اٹھ رہی تھیں، وہ اب حَسین جہاں سے ہی سوال کرنے لگیں۔
یہاں ایک بات اور یاد دلانا چاہوں گا کہ حَسین جہاں نے محمد شمی پر ایک الزام یہ بھی لگایا تھا کہ انھوں نے چیک سے ادائیگی پر روک لگا دی ہے اور خرچ کے لیے ٹھیک طرح پیسہ نہیں دیتے۔ ان کی یہ بات بھی جھوٹی ثابت ہو گئی جب 22 مارچ کو محمد شامی نے اپنا بینک اسٹیٹمنٹ جاری کیا۔ بینک اسٹیٹمنٹ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ 20 مارچ کو حسین کے کھاتے میں شمی کا چیک نمبر 303718 کے ذریعہ ایک لاکھ روپے کی ادائیگی ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسین جہاں نے یہ الزام 20 مارچ کو ہی لگایا تھا۔
حَسین جہاں نے اپنے عمل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کا برا کرنے کی کوشش میں اپنا ہی برا کر لیتے ہیں۔ محمد شامی نے انھیں جو خوشگوار، باوقار اور عزت والی زندگی عطا کی تھی وہ انھیں راس نہیں آئی۔ شاید انھیں ماڈل اور چیئر لیڈر والی زندگی زیادہ اچھی معلوم ہو رہی ہے جس میں ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کے سامنے آزادی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ اس مارچ کے مہینے میں محمد شامی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ یقیناً ان کو زندگی بھر یاد رہے گا۔ وہ اس بات پر بھی افسوس کرتے رہیں گے کہ انھوں ایک ایسی لڑکی کو شریک حیات بنایا جس نے پہلے تو ان کو گھر والوں سے دور کیا پھر ان کی زندگی بھی جہنم بنا دی۔
بہر حال، اس وقت محمد شامی کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ اتنی خوشی تو شاید انھیں اس وقت بھی نہیں ہوئی ہوگی جب انہیں ہندوستانی ٹیم کے لیے پہلی بار کھیلنے کا موقع ملا ہوگا۔ سنٹرل کانٹریکٹ میں شامل کیے جانے کے بعد جب میڈیا نے ان سے بات کی تو ان کے اندر جوش نظر آ رہا تھا، توانائی دیکھنے کو مل رہی تھی اور ایک عزم بھی ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ ایک حب الوطن کھلاڑی ہیں جو کرکٹ کے میدان میں ایک بار پھر حب الوطنی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 23 Mar 2018, 10:31 PM