زوبین گرگ: ثقافتی طور پر سبھی کو جوڑنے والا انقلابی... سوربھ سین
زوبین گرگ کی موت نے عوامی جذبات کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ ان کی موت نے بتایا کہ ہندی اور ہندو سے جدا ہونے پر ہندوستان کیسا سلوک کر سکتا ہے۔

یہ المیہ دیکھیے کہ جب تک زوبین گرگ زندہ تھے، وہ سیاست دانوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے اور اسی لیے ان سے دوری بنا کر رکھتے تھے۔ لیکن اس مشہور گلوکار کی موت کے بعد آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما سمیت تمام سیاست داں اُن کے مداحوں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔
گلوکار و موسیقار زوبین گرگ کی 19 ستمبر کو سنگاپور میں ڈوبنے سے موت کی خبر آسام میں اُن کے لاکھوں مداحوں کے لیے صدمہ بن کر آئی۔ زوبین ’نارتھ ایسٹ انڈیا فیسٹیول‘ میں شرکت کے لیے سنگاپور گئے تھے اور دورانِ قیام انہوں نے خوبصورت لازارس جزیرے پر تیراکی کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹروں نے انہیں کسی بھی محنت والی سرگرمی سے پرہیز کرنے کو کہا تھا، جس کا وہ خیال نہیں رکھ سکے۔ بتایا جاتا ہے کہ دوسری بار تیراکی کرتے وقت انہیں دورہ پڑ گیا۔
ان کی لاش 21 ستمبر کو گوہاٹی پہنچی، جہاں 3 دنوں میں تقریباً 15 لاکھ لوگوں نے اُن کے آخری دیدار کیے۔ اس دوران آسام کی عام زندگی تھم گئی۔ لمکا بُک آف ریکارڈز نے بھی اسے دنیا کی چوتھی سب سے بڑے عوامی اجتماع کے طور پر درج کیا۔ بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور ہندوستان کے مختلف شہروں سے تعزیتی پیغامات آنے لگے۔ درگا پوجا کی تقریبات ماند پڑ گئیں۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما بوڈولینڈ علاقائی کونسل کی انتخابی مہم سے فوراً واپس لوٹ آئے تاکہ آخری رسومات کی تیاریوں کا جائزہ لے سکیں۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر ایک 52 سالہ علاقائی زبان کے گلوکار اور موسیقار نے لوگوں کے دل کس طرح جیت لیے اور جغرافیائی، سماجی، سیاسی، مذہبی و معاشی تفریق سے اوپر اٹھ کر 15 لاکھ مرد، عورتوں اور بچوں کو (آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ اُن کے گیت گاتے اور نوحہ خوانی کرتے ہوئے) ایک پلیٹ فارم پر کیسے جمع کر دیا؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ زوبین تقسیم کے بیانیے کے برعکس اتحاد کے پیامبر بن کر اُبھرے تھے؟
زوبین کا فن اور اُن کی زندگی ہندوستان میں ابھرے دائیں بازو کے بیانیے کے بالکل مخالف تھی۔ وہ پیدائش سے برہمن تھے، لیکن انہوں نے مذہب اور ذات پات کو اعلانیہ رد کر دیا اور خود کو ملحد اور ’سماجی بائیں بازو والا‘ قرار دیا۔ وہ چے گویرا کو اپنا آئیڈیل مانتے تھے۔ زوبین نے 14 زبانوں میں تقریباً 40 ہزار گیت گائے۔ بالی ووڈ سے خود کو الگ رکھتے ہوئے انہوں نے علاقائی زبانوں میں گانے کا راستہ منتخب کیا۔ گوہاٹی اور ممبئی میں اُن کے گھر کے دروازے سب کے لیے کھلے رہتے تھے، جدوجہد کرنے والے فنکاروں سے لے کر عام مصیبت زدہ لوگوں تک۔ اکثر انہیں سڑک کنارے چائے کی دکانوں پر چائے پیتے، عام لوگوں سے اپنی زندگی کی باتیں کرتے اور اپنی کمزوریوں (جن میں شراب نوشی بھی شامل تھی) پر کھل کر بات کرتے دیکھا جاتا تھا۔
زوبین کی گلوکاری کا سفر 1990 کی دہائی کے اواخر میں شروع ہوا، جب آسام انتہا پسندی سے نبرد آزما تھا اور نوجوان ’ہندی پاپ کلچر‘ کی جانب مائل ہو رہے تھے۔ زوبین نے اُلفا کے اُس فرمان کی پروا نہیں کی جس میں ہندی نغمے گانے پر پابندی تھی، بلکہ انہوں نے بیہو پروگراموں میں ہندی نغمے گائے۔ لیکن اُن کے پاس اس سے بھی بڑا ہتھیار تھا۔ انہوں نے آسامیہ اور دیگر مقامی زبانوں میں ایسے گیت گائے جنہوں نے عوام کی امنگوں، پریشانیوں اور خوشیوں کی منظرکشی کی۔ حال ہی میں بھوپین ہزاریکا پر دستاویزی فلم بنانے والی ادیبہ اور کارکن ببیتا شرما کہتی ہیں کہ ’’وہ باغی تھے، مگر جارح نہیں۔‘‘
جلد ہی اُن کے گیت آسام کی چائے کی دکانوں، بازاروں اور دور دراز چائے باغات میں گونجنے لگے۔ ببیتا شرما کہتی ہیں ’’1990 کی دہائی میں جب ہم نوجوان تھے، زوبین کے گانے ہمیں اپنی جڑوں کی طرف واپس لے آئے، آسام کی ثقافتی وراثت کی یاد دلاتے ہوئے۔ ہاں، ان کا انداز جدید مغربی ضرور تھا۔‘‘ انسانی حقوق کے کارکن، مصنف اور فلم ساز سنجے ہزاریکا کہتے ہیں ’’زوبین عوام کے غصہ اور دکھ کو محسوس کرتے تھے، اس لیے لوگ ان سے جڑ جاتے تھے۔ وہ سیاست دانوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور بے باکی سے ان موضوعات پر بولتے جن پر دوسروں کو بولنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جب حکومتِ ہند نے 2024 میں آسامیہ زبان کو کلاسیکی زبان کا درجہ دیا، تو وہ ناراض ہوئے۔ کہا کہ یہ زبان ہزاروں سالوں سے زندہ ہے، اسے کسی سرکاری سند کی ضرورت نہیں۔ وہ اس مٹی کے سچے سپوت تھے اور اُن کی زندگی نے جمود کو چیلنج دیا۔‘‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ممبئی میں رہنے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا، تو جواب دیا ’’ایک بادشاہ کو اپنا راج کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔‘‘ اپنے ایک انٹرویو میں، جو اتفاق سے اُن کا آخری بھی ثابت ہوا، انہوں نے کہا تھا کہ ’’جب دوسری مشہور ہستیاں مرتی ہیں تو وہ خبر بنتی ہیں، لیکن میری موت سے آسام ایک ہفتہ کے لیے رک جائے گا۔‘‘ آج پیچھے مڑ کر دیکھیں تو وہ بات پیشین گوئی سی لگتی ہے۔
زوبین نے سیاست دانوں کے تئیں اپنی نفرت کبھی نہیں چھپائی۔ انہوں نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مخالفت کی اور حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات کو ٹھکرا دیا۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا کہ ’’لوگ کہتے ہیں میرا رویہ الگ ہے، میں کہتا ہوں کہ میں پُراعتماد ہوں۔‘‘
اُن کی موت کے بعد بھی تنازعہ اُن کے ارد گرد برقرار ہے۔ انصاف کے مطالبے کے درمیان اُن کی موت سے متعلق 55 ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک ’جاتیہ ناری واہنی‘ نے درج کرائی، جس میں لاپروائی اور ممکنہ سازش کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ آسام سی آئی ڈی کی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم اس کیس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ تحقیقات کے دائرے میں شامل اہم شخصیات ہیں سنگاپور میں پروگرام کے منتظم شیامکانو مہنت، زوبین کے منیجر سدھارتھ شرما، ڈرمر شیکھرجیوتی گوسوامی اور صنعت کار سنجیو نارائن۔ جب یہ مضمون شائع ہوا، اس وقت مہنت اور سدھارتھ کو گرفتار کر کے عدالتی حراست میں رکھا گیا تھا۔
ناقدین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جس شخص کو دورے پڑنے کی بیماری تھی، اسے تیراکی کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ زوبین کے خاندان نے غیر جانبدار اور شفاف جانچ کا مطالبہ کیا ہے، لیکن عوام میں یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ معاملے پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مہنت اور اُن کے ساتھیوں کے گوہاٹی اور دہلی میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے قریبی تعلقات ہیں۔ مہنت کے خاندان کے رشتے آسام کی پولیس اور تعلیمی اداروں سے بھی ہیں۔ چونکہ آسام میں 2026 کے اوائل میں انتخابات ہونے ہیں، اس لیے یہ معاملہ حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہیمنت بسوا سرما نے خود سیاست کی چنگاری بھڑکائی، جب انہوں نے کہا کہ اگر زوبین کو انصاف نہیں ملا تو عوام اُن کی پارٹی کو ووٹ نہ دیں۔
اسی دوران صنعت کار گوتم اڈانی، زوبین کے آخری رسومات کے چند دن بعد اچانک اُن کے گھر پہنچ گئے۔ قابلِ ذکر ہے کہ آسام میں اڈانی کے تجارتی مفادات (جن میں کوکرا جھار کا متنازع بجلی گھر بھی شامل ہے) عوامی مخالفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اڈانی کا زوبین کے گھر جانا عوام میں اپنی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
زندگی میں زوبین ایک ایسے منفرد انسان تھے جنہوں نے تقسیم کے بیانیے کو مسترد کیا۔ موت کے بعد انہوں نے آسام کے جذباتی نبض کو بے نقاب کیا اور یہ دکھایا کہ ہندی اور ہندو شناخت سے الگ ہونے پر ہندوستان کس طرح ردِ عمل ظاہر کر سکتا ہے۔
(سوربھ سین کولکاتا میں مقیم ایک فری لانس مصنف اور تبصرہ نگار ہیں۔)