ظہران ممدانی کی فتح بیلیٹ سے کہیں زیادہ معنی کیوں رکھتی ہے؟... حسنین نقوی
ممدانی کی فتح صرف آبادیاتی سنگ میل نہیں ہے، یہ ایک للکار ہے کہ ’ترقی پسند ویژن‘ جمی ہوئی طاقت اور موقع پرست سیاست پر غالب آ سکتا ہے۔
4 نومبر 2025 کو نیویارک سٹی نے صرف ایک میئر منتخب نہیں کیا، بلکہ اس نے انصاف، شناخت اور اخلاقی قیادت کے بارے میں ایک گونج دار پیغام دیا ہے۔ ظہران ممدانی یوگانڈا اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مہاجر والدین کے 34 سالہ بیٹے، شہر کے پہلے جنوبی ایشیائی اور شیعہ مسلمان میئر کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کی جیت ایک ایسے اتحاد کے سہارے سامنے آئی ہے جو ہمدردی، مساوات اور عالمی ضمیر پر مبنی سیاست کا مطالبہ کر رہا تھا۔
ممدانی کی فتح صرف آبادیاتی سنگ میل نہیں ہے، یہ ایک للکار ہے کہ ’ترقی پسند ویژن‘ جمی ہوئی طاقت اور موقع پرست سیاست پر غالب آ سکتا ہے۔ سخت سہ رخی مقابلے میں ان کی 52.8 فیصد سے ملی اکثریت نے توقعات کو توڑ دیا، جسے نوجوانوں، مہاجروں اور پسماندہ برادریوں میں بے مثال ووٹنگ ٹرن آؤٹ نے سہارا دیا۔ کوئنس سے برانکس تک اور بروکلن تک پیغام واضح تھا، یعنی نیویارک کے شہری ایسا شہر چاہتے ہیں جو ان کا خیال رکھے، نہ کہ ایسا جو ارب پتیوں اور سیاسی اشرافیہ کی خدمت کرے۔
یہ غیر معمولی سیاسی کارنامہ خود ممدانی کی زندگی کی کہانی بیان کرتا ہے۔ وہ کمپالا میں ایک ممتاز محقق اور فلم ساز کے گھر پیدا ہوئے، کوئنس کے محنت کش طبقہ کی جدوجہد میں ڈھلے اور بطور ہاؤسنگ کاؤنسلر اپنے تجربات سے نکھرے۔ ان کا ویژن بلا جھجک بلند ہے– 2030 تک 30 ڈالر فی گھنٹہ کم از کم اجرت، یونیورسل چائلڈ کیئر، کرایوں میں منجمدی، مفت سرکاری کالج، مفت پبلک ٹرانزٹ اور مضبوط ماحولیاتی استقامت کے پروگرام۔ یہ خیالی وعدے نہیں بلکہ مفصل منصوبے ہیں جو انتہائی دولت مندوں اور کارپوریشنز پر مغربی یورپ جیسے ٹیکس لگا کر فنڈ کیے جائیں گے۔
ممدانی کا نیو لبرل سوچ پر چیلنج ایک ضروری اصلاح ہے۔ نیویارک، ایک ایسا شہر جہاں ہر 5 میں سے ایک بچہ اب بھی غربت میں جیتا ہے، تدریجی اصلاحات سے مطمئن نہیں ہو سکتا۔ نو منتخب میئر نے جرأت کے ساتھ کہا کہ ’’مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں ارب پتیوں کی ضرورت ہے‘‘۔ اس بیان کے ساتھ انھوں نے یاد دلایا کہ معاشی نابرابری کوئی ناگزیر حقیقت نہیں بلکہ ایک سیاسی سلیکشن ہے۔
ممدانی کی اہمیت مقامی پالیسی سے کہیں آگے جاتی ہے۔ ان کی فتح عالمی تنازعات اور خاموشیوں کے مرکز پر ضرب ہے۔ فلسطینی حقوق کے پرزور حامی، بائیکاٹ، ڈِویسٹمنٹ اور سینکشنز تحریک (بی ڈی ایس) کے موید، اور وہ قانون ساز جنہوں نے اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کو فنڈ دینے والی نیویارک کی خیراتی تنظیموں کو للکارا، ممدانی مقامی اور عالمی کو الگ نہیں کرتے۔ 2023 میں غزہ جنگ بندی ریلی کے دوران ان کی گرفتاری اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی بین الاقوامی قانون کے تحت گرفتاری کے مطالبے نے رائے کو منقسم کیا، لیکن یہ وہ اخلاقی وضاحت کے عمل تھے جو خوفزدہ دنیا میں کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اسی طرح، ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ’جنگی مجرم‘ قرار دینے کی ان کی بے باک مذمت، جس نے گجرات 2002 اور غزہ 2024 کے درمیان خطوط کھینچے، نے ’ڈائسپورا‘ کے ممنوعات کو توڑ دیا اور شناختی سیاست کی خود پسندی کو چیلنج کیا۔ ممدانی ایسی سیاست کی نمائندگی کرتے ہیں جو سہولت کے لیے تاریخ کو صاف کرنے سے انکار کرتی ہے، اس اصرار کے ساتھ کہ سچ بولنا انصاف کی بنیاد ہے۔ ناقدین نے انہیں انتہاپسند قرار دیا اور ان کی مہم نے اسلاموفوبک حملوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات کا سامنا کیا، جن کی تفتیش کی گئی اور حکام نے انہیں مسترد کر دیا۔ پھر بھی ممدانی کا پیچھے نہ ہٹنا آج کی تبدیلی پسند سیاست کے لیے ضروری ثابت قدمی کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کے اتحاد کی طاقت اس کی بین اللسانی اور طبقاتی ہم آہنگی میں ہے۔ نوجوان ووٹرز، مہاجر برادریاں، مزدور یونینیں، ماحولیاتی کارکنان اور ترقی پسند لوگ... سب ایک ایسے ویژن کے گرد متحد ہوئے جو رہائش، صحت، ماحول اور انسانی حقوق کو جوڑتے ہیں۔ الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور برنی سینڈرز کی حمایت محض تعریف نہیں بلکہ ایک بڑھتی ہوئی تحریک کا اشارہ ہے۔ ممدانی ایک ایسا خاکہ پیش کرتے ہیں کہ شہروں کو عدم مساوات، آمرانہ رجحانات اور سماجی انتشار کے دور میں کس طرح قیادت کرنی چاہیے۔ ذہنی صحت اور سستی رہائش کو عوامی سلامتی کا حصہ بنانا، صنفی تصدیقی نگہداشت کو فروغ دینا اور تارکین وطن کے لیے پناہ گاہ پالیسیوں کے عزم کے ذریعے وہ حکومت کو ایک اخلاقی منصوبے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
جب نیویارک بڑھتے ہوئے کرایوں سے لے کر ماحولیاتی بحرانوں تک کے چیلنجز کے لیے تیار ہو رہا ہے، تو نو منتخب میئر کا نعرہ ’سب کے لیے شہر، چند کے لیے نہیں‘ ایک وعدہ بھی ہے اور ایک چیلنج بھی۔ نیویارک کے شہریوں اور عالمی ناظرین کو اس لمحے پر توجہ دینی چاہیے کہ حوصلہ، ایمان اور غیر مصالحتی انصاف اب بھی سیاست کا رخ موڑ سکتے ہیں۔
ظہران ممدانی کا عروج دنیا بھر کی پسماندہ برادریوں کے لیے ایک تحریک ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ رکاوٹ توڑنے والی نمائندگی اصولوں کو کمزور نہیں کرتی بلکہ انہیں مزید طاقت دیتی ہے۔ جو لوگ سیاسی موقع پرستی سے مایوس ہیں ان کے لیے ممدانی کی فتح ایک مینارِ نور ہے، یاد دہانی ہے کہ جمہوریت کا وعدہ اپنی عوام کی متنوع اور پیچیدہ انسانیت کی عکاسی میں مضمر ہے۔
مستقبل کے لیڈران اور ووٹرس دونوں کے لیے ممدانی کی فتح ایک غیر مبہم سبق پیش کرتی ہے۔ بتاتی ہے کہ ترقی تماشائیوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس کے لیے شمولیت، استقامت اور انصاف سے کم پر سمجھوتہ نہ کرنے کا حوصلہ درکار ہے۔ اگر نیویارک ظہران ممدانی کو منتخب کر سکتا ہے، تو وہ دنیا کے دیگر شہروں کے لیے ضمیر اور جرأت کے ساتھ حکمرانی کی راہ دکھا سکتا ہے۔
(مضمون نگار حسنین نقوی سینٹ زیویئرس کالج، ممبئی میں شعبۂ تاریخ کے سابق رکن ہیں)