یوگی کی ’کانوڑ بھگتی‘ نفرت کا پیش خیمہ!
کیا یوگی انتظامیہ مسلمان یا دلت برادری سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے ساتھ بھی ایسی ہی فراخدلی کا مظاہرہ کرے گی؟ یا ان پر بلڈوزر، یو اے پی اے اور نہ جانے کیا کیا لگائیں گے؟

کانوڑ یاتریوں پر پھولوں کی بارش کرتے یوگی آدتیہ ناتھ / آئی اے این ایس
ہندوستان ایک کثیر الثقافتی اور متنوع ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں کوئی مہینہ کسی تہوار سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ دیوالی، شب برات، ہولی، محرم، عید، بقرعید، کرسمس جیسے بے شمار تہوار مناتے ہیں اور اپنے دوست اور شناساؤں کو مدعو کر کے وطن عزیز میں بھائی چارے کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ تنوع ہندوستان کی خاص پہچان ہے جو دنیا کے کسی ملک میں نہیں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس تنوع کے ساتھ فرقہ وارانہ حالات بھی اکثر سر اٹھاتے رہے ہیں۔ مذہبی خیالات اور نظریات سے اختلاف، غلط فہمیاں ہی فرقہ وارانہ کشیدگی، تناؤ اور تصادم کا سبب بنتی ہیں جو بدامنی اور تشدد، ٹکراؤ اور نفرت کو اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔
ہندوستان میں کثیر الثقافتی سماجی نظام کو اصلاحات، ایڈجسٹمنٹ، باہمی احترام اور ایک ماورائی زندگی کے تصور کے ذریعے مضبوط کیا گیا ہے جو مذہبی اور ثقافتی دقیانوسی تصورات سے بالاتر ہے۔ یہ ہم آہنگی روایات ہمارے بزرگوں اور روشن خیال افراد کی جدوجہد سے ممکن ہوئی ہے اور اب یہ لوگوں کی سماجی مذہبی زندگی کا لازمی حصہ بن گئی ہیں۔ ان روایات نے اتحاد، پرامن بقائے باہمی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر کچھ متعصب لوگ اکثر اس ہم آہنگی کو چیلنج کرتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سبقت لیتے نظر آ رہے ہیں جن کے حالیہ ایک بیان نے اقلیت اور اکثریت کے درمیان ایک بار پھر دوریاں بڑھانے اور نفرت پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے ساون کے آٹھویں دن برملا اپنی متعصبانہ ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف محرم کے تعزیوں کا کانوڑ یاترا سے موازنہ کر دیا بلکہ اسی میں لاتوں کے بھوت کا ذکر بھی کیا۔ یوگی کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ویڈیوز کا سیلاب آ گیا ہے جس میں کانوڑیوں کو تشدد کرتے دکھایا گیا ہے اور یوگی سے سوال کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ عام لوگوں کے ساتھ مارپیٹ اور املاک کو نقصان پہنچا کر کس ’اتحاد کا جشن‘ منا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ساون کے مہینے میں کانوڑ یاترا جاری ہے، اس دوران ہزاروں عقیدت مند گنگا کا پانی لیتے ہیں اور اسے اپنے آس پاس کے شیو مندروں میں چڑھاتے ہیں۔ یاترا میں شامل لوگوں کی طرف سے مسلسل ہنگامہ آرائی کی خبریں آ رہی ہیں جن کی ویڈیو اور تصاویر وائرل بھی ہو رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک اور ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہا ہے جس میں کانوڑ یاتریوں کے گروپ کے ذریعہ مرزا پور ریلوے اسٹیشن پر سی آر پی ایف کے ایک جوان کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور زمین پر گرا کر اس کو لاتوں سے پیٹا جا رہا ہے۔ ٹکٹ تنازع پر ہوئی اس مارپیٹ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جوان پر حملہ کرنے والے کانوڑ یاتریوں کو گرفتار کر کے 30 منٹ میں ضمانت دے دی گئی۔ ایسی صورت میں سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یوگی انتظامیہ مسلمان یا دلت برادری سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے ساتھ بھی ایسی ہی فراخدلی کا مظاہرہ کرے گی؟ یا ان پر بلڈوزر، یو اے پی اے اور نہ جانے کیا کیا لگائیں گے؟ یا یوں کہیں کہ ہریدوار۔ دہلی روٹ پر ’اپنی جان کی خود حفاظت کریں‘ کا بورڈ لگا دیا جانا چاہئے کیونکہ کانوڑ یاترا چل رہی ہے۔
اس سے قطع نظر، معاشرے میں سرکاری طور پر تفرقہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ سرکاری طور پر کانوڑیوں کی سیوا کی جا رہی ہے، کانوڑیوں کی خدمت کرنے والے یوپی پولیس افسران کے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے یوگی نے خاص ہدایات دے رکھی ہیں۔ وہ مختلف میٹنگز میں کہہ چکے ہیں کہ کانوڑ لے جانے والوں کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں ہر جگہ خوش آمدید کہا جانا چاہیے۔ یوپی ایس ٹی ایف سے لے کر یوپی اے ٹی ایس تک کے کمانڈوز کو ان کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔ امن و امان کے لیے یوگی حکومت کے اس قدم کا خیرمقدم کرتے ہیں مگر کانوڑیوں کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا وزیراعلیٰ کو زیب نہیں دیتا۔
تشدد، فساد، مارپیٹ رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں مگر اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ کانوڑ یاتریوں کو فسادی بتا کر انہیں بدنام کیا جا رہا ہے، یہ سازش ہے، آستھا کا اپمان ہے۔ اب یوگی کو کون بتائے کہ یہ آستھا کے خلاف سازش ہے یا کانوڑ عقیدت مندوں کے بھیس میں کچھ شرپسند قانون کو سرعام چیلنج کر رہے ہیں۔ اس کا ثبوت مرزا پور کے بعد ہریدوار میں سامنے آیا ہے جہاں معمولی ٹکر لگنے سے کانوڑیے اتنے مشتعل ہوئے کہ جم کر ہنگامہ کیا اور لاٹھی ڈنڈوں سے گاڑی کو ہی تباہ کر دیا۔ ایسی صورت میں کیا یہ کہا جائے کہ بھگوا قانون سے اوپر ہے؟ اور جب بھگوا دھاری قانون سے اوپر ہو جائے تو سمجھ لیجیے کہ حکومت نہیں، غنڈہ راج چل رہا ہے اور اس میں اپنی جان بچانا آپ کی خود کی ذمہ داری ہے۔
بھکتی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کسی کے ہوٹل یا دکان کے ’کیو آر‘ چیک کریں بلکہ اس کے لیے آپ کے دل میں صرف بھکتی کا جذبہ ہونا چاہئے اور یہ سڑک سے گزرتے ہوئے کئی مسلمانوں نے دکھایا ہے جب وہ اپنی منزل کے راستے میں ملے کئی کانوڑ یاتریوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر مسافت طے کرائی ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے جگہ جگہ کانوڑیوں کو کھانے پینے کی اشیاء پیش کی جاتی ہیں، ان پر پھول برسا کر ہندوستان کے سیکولرزم اور منفرد ثقافت کو مستحکم رکھا جاتا ہے مگر ملک کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ کو شاید یہ سیکولرزم اور تاریخی ثقافت راس نہیں آ رہے ہیں۔ تبھی وہ محرم سے کانوڑ یاترا کا موازنہ کر کے دو فرقوں کے درمیان نفرت پیدا کر رہے ہیں۔
اتر پردیش اور اتراکھنڈ کی پولیس کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ صرف مسلمانوں سے تعصب رکھنے والے بھکتوں کی پولیس نہیں ہے۔ مسلمان بھی اس ملک کے شہری ہیں اس لیے شہریوں کے لیے قانون کا دہرا پیمانہ سماج کے لیے خطرناک ہے۔ پولیس کی وردی شہریوں کی حفاظت کی علامت ہے، اس کو تعصب کے داغ سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ آج ایسے افراد کی سخت ضرورت ہے جو ہندوستان کے کثیر الثقافتی معاشرہ میں وحدت کے گیت عام کریں تاکہ اتحاد کا درس قائم رہے اور دلوں کو الفت و محبت کی زنجیر میں پرویا جا سکے۔ یہ اوصافِ حمیدہ معاشرے میں جمہوری قدروں کو استحکام بخشنے میں معین و مددگار ثابت ہوں گے۔ مذہب کے نام پر سیاست کا گندا کاروبار معاشرہ کی بھائی چارگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔