خواتین نے اپنے لہو سے روشن کیا جنگ آزادی کا چراغ... ڈاکٹر مشتاق صدف

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بہت سی خواتین ایسی گزری ہیں جنہوں نے جدوجہد آزادی میں مردوں کی طرح جنگ لڑی اور کامرانی حاصل کی، غور کرنے پر ہمیں ان خواتین کی ایک کہکشاں دکھائی دیتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈاکٹر مشتاق صدف

ہندوستان کی جنگ آزادی کا جب بھی ذکر آتا ہے تو ایک طرف جہاں آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، وہیں دوسری طرف آزادی کے متوالوں کے ایثار و قربانی کی بدولت حصول آزادی دیکھ کر ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ ہمیں 15 اگست 1947 کو جو آزادی نصیب ہوئی وہ ایک طویل جدوجہد کی داستان بیان کرتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستانی عوام نے انگریزوں کو ملک چھوڑنے کے لیے مجبور کر دیا۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں جن مجاہدین نے کلیدی رول ادا کیا اور اپنی جان کی قربانیاں دیں ان میں بے شمار مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی۔ لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مجاہدین آزادی میں ہم مرودں کا نام تو لیتے ہیں لیکن خواتین جانبازوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ بلکہ ایسا بھی ہوتا آیا ہے کہ چند ہی نام ہماری زبان پر بار بار آتے ہیں۔ باقی ناموں کو ہم یاد نہیں رکھتے۔

حصول آزادی کے لیے جن خواتین نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا، ان کو آخر ہم کیوں بھول جاتے ہیں۔ بھگت سنگھ، رام پرساد بسمل، مہاتما گاندھی، سردار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے نام ہی ہمارے کانوں میں گونجتے ہیں۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بہت سی خواتین ایسی گزری ہیں جنہوں نے جدوجہد آزادی میں مردوں کی طرح جنگ لڑی اور کامرانی حاصل کی۔ غور کرنے پر ہمیں ان خواتین کی ایک کہکشاں دکھائی دیتی ہے۔ ان میں جھانسی کی رانی لکشمی بائی، بیگم حضرت محل، اینی بیسینٹ، کستوربا گاندھی، سروجنی نائیڈو، کملادیوی چٹوپادھیائے، وجےلکشمی پنڈت، ارونا آصف علی، لکشمی سیگل وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔


سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ نڈر، بہادر اور بے خوف خواتین کے ذکر اور ان کی گراں قدر وطنی خدمات کے بغیر ادھوری ہے۔ دراصل یہ وہ آزاد پسند خواتین ہیں جنہوں نے جنگ آزادی میں اپنی زندگیاں کھپا دیں اور ہمیں کامیابیوں سے ہمکنار کیا۔ ہمیں ایک نئی صبح دیکھنے کو ملی۔ انھوں نے ہمیں اس مقام پر پہنچایا کہ ہم کھلی فضا میں سانس لے سکیں۔ اپنے ملک کی یہ وہ عظیم خواتین ہیں جنہوں نے بڑی حکمت عملی، بےخوفی، ذہانت اور جوش و جذبے اور نئے حوصلے کے ساتھ مادر وطن کی آزادی کے لیے ایک لمبی لڑائی لڑی۔ پھروہ دن بھی آیا جس کی صبح کا انتظار سب کو تھا۔

جنگ آزادی میں حصہ لینے والی جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا ایک نام بہت نمایاں ہے۔ وہ پہلی جنگ آزادی کے رہنماؤں میں ایک ایسی خاتون تھیں جو پرجوش محب وطن کے طور پر مقبول ہوئیں۔ انہوں نے اپنے شوہر اور جوان بیٹے کی موت کے بعد جھانسی کو برطانوی سلطنت میں شامل کیے جانے کے ایک قانون کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ خوب لڑی مردانی وہ تو جھانسی والی رانی تھی۔

اسی طرح بیگم حضرت محل نے جس طرح انگریزوں کے خلاف بغاوت شروع کی اور انہیں للکارا، اس کی دوسری کوئی نظیر دیکھنے کو نہیں ملتی۔ انہیں آزادی کی پہلی جنگ میں جھانسی کی رانی لکشمی بائی کی ہم منصب قرار دیا جاتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی بادشاہی کے حصول کے لیے جنگ کی بلکہ انگریزوں نے جس طرح مندروں اور مسجدوں کو تباہ کر دیا تھا اس کے خلاف اپنی آواز پرزور انداز میں بلند کی۔

اس تعلق سے ایک بہت اہم نام اینی بیسنٹ کا ہے۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ہندوستانی نہیں بلکہ ایک انگریز خاتون تھیں جنہوں نے ہوم رول (Home-Rule) کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ وہ چاہتی تھیں کہ ہوم رول کے ساتھ ہندوستان ایک جمہوری ملک بنے۔ انہوں نے وارانسی میں سینٹرل ہندو کالج کے قیام کی بات کی اور آل انڈیا ہوم رول لیگ کی تشکیل کی جس کے لیے انگریزوں نے انہیں گرفتار بھی کیا۔ وہ ضرور ہندوستانی نہیں تھیں لیکن ان کا دل ہمیشہ ہندوستان کے لیے دھڑکتا رہا۔ ان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔


کستوربا گاندھی کے جوش و جذبہ کو ہم سلام کرتے ہیں جنہوں نے اپنے وطن کے وقار کو بلند کرنے کے لیے انگریزوں سے خوب مقابلہ کیا، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ کستوربا گاندھی اور ان کی پرزور حمایت کے بغیر مہاتما گاندھی کو شاید وہ کامیابی کبھی نہیں ملتی جو انہوں نے حاصل کی۔ ان کی نیشنلزم اور حب الوطنی اس وقت بھی تھی جب وہ جنوبی افریقہ میں تھیں۔ انہیں ہمیشہ ہندوستان میں آزادی کی تلاش رہی جس کے سبب پولیس نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں بھی ڈالا۔ ان کی بہادری کا ایک زمانہ قائل ہے۔ آزادی پسند خواتین میں انہیں بڑی قدر اور عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی وطنی خدمات ہمیشہ روشن رہیں گی۔

اس فہرست میں ایک بہت ہی ممتاز نام سروجنی نائیڈو کا ہے جنہیں ’بلبل ہند‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہندوستانیوں کی کثیر تعداد کو انگریزوں سے مقابلہ کرنے اور اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی ترغیب دی۔ وہ مہاتماگاندھی کی پیروکار تھیں۔ انہوں نے عدم تعاون تحریک کی بڑی فعالیت کے ساتھ حمایت کی۔ نیز اپنی شاعری کے ذریعے عوام کے ایک وسیع حلقے کو بہت متاثر کیا۔

آزادی پسند خواتین میں ایک نام کملا دیوی چٹوپادھیائے کا ایسا بھی ہے جو ہمشہ اولیت کا حامل رہے گا۔ انہوں نے 1923 میں مہاتما گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک کی حمایت کرنے کے لیے لندن میں اپنی خوشگوار زندگی چھوڑ کر اس میں شرکت کے لیے ہندوستان واپس آئیں۔ انہوں نے آل انڈیا ویمنز کانفرنس کا قیام عمل میں لایا، جس نے قانون سازی میں اصلاحات کو فروغ دیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ نمک ستیہ گرہ کی قیادت کرنے والی ٹیم میں فقط دو خواتین میں سے وہ ایک تھیں۔

اسی طرح وجئے لکشمی پنڈت کا نام بھی بہت اہم ہے جو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی بہن تھیں۔ ان کا نام حصول آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں بہت عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ آزادی کی جدوجہد کے دوران، انہوں نے ہندوستانیوں کے ساتھ بہتر سلوک کے لیے سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ تین مختلف مواقع پر انہیں قید بھی کیا گیا لیکن وہ کبھی نہ تو پریشان ہوئیں اور نہ تھکیں۔ مسلسل لڑتی رہیں۔


ارونا آصف علی کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے وطن عزیز کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ ان کا انگریزوں کے ساتھ پہلا مقابلہ اس وقت ہوا جب انہوں نے نمک ستیہ گرہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بلکہ اس میں ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ انہوں نے اپنی رہائی کے بعد ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کی قیادت کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ وہ بہت جلد اپنی فعالیت کے سبب تحریک کا ایک روشن چہرہ اور آزادی پسند خواتین کی طاقت بن گئیں۔ انہوں نے گووالیا ٹینک میدان میں انڈین نیشنل کانگریس کا جھنڈا اٹھاتے ہوئے خود پر چلائی جانے والی گولیوں کا جم کرمقابلہ کیا۔ انھوں نے گرفتاری کے وارنٹ سے بچنے کے لیے زیر زمین جانے کے باوجود، کانگریس کے ماہنامہ رسالہ ’انقلاب‘ کی ایڈیٹنگ جاری رکھی۔

لکشمی سہگل کا نام اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ انہوں نے حصول آزادی کے لیے حسب ضرورت طاقت کے استعمال پر اصرار کیا۔ سنگاپور میں سبھاش چندر بوس سے ان کی ایک یادگار ملاقات ہوئی۔ جہاں سبھاش چندر بوس نے انہیں انڈین نیشنل آرمی کی ایک فعال رکن بننے اور جھانسی رجمنٹ کی رانی کے نام سے خواتین کا ایک ڈویژن بنانے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہر موقع پر انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ برما میں انہیں دو سال تک گھر میں نظر بند رکھا گیا، لیکن وہ کبھی خوف زدہ نہیں ہوئیں۔ بلکہ برطانوی راج کے خلاف جم کر مزاحمت کی۔

ان کے علاوہ بھی ملک کی سینکڑوں ایسی عظیم خواتین گزری ہیں، جنہوں نے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ مادر وطن کی آزادی کے لیے جنگ لڑی۔ ان میں بہتوں کے نام ہمیں یاد نہیں رہتے۔ بیگم روئیکا، اوشا مہتا، بھیکاجی کاما، جانکی دیوی بجاج، تارکیشوری سنہا، سرلا دیوی چودھرانی، انپورنا مہارانا، ہزارہ بیگم، بی بی اماتوس سلام، آبادی بانو بیگم جیسے کئی نام تاریخ کے صفحات میں درج ہیں جنہوں نے سچے جذبے اور بے باک حوصلے کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور استحصال کی کوئی پروا نہیں کی۔


جب مرد آزاد پسند جیلوں میں بند تھے تو متعدد خواتین نے جنگ آزادی میں حصہ لے کر اپنی ذمہ داری قبول کی۔ یاد رہے کہ جنگ آزادی میں خواتین کی شرکت کا آغاز 1817 کے اوائل میں ہوا۔ بھیما بائی ہولکر نے برطانوی کرنل میلکم کے خلاف لڑائی لڑی اور گوریلا جنگ میں شکست دی۔ اسی طرح کٹور کی رانی چناما، اودھ کی رانی بیگم حضرت محل وغیرہ نے 19ویں صدی میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف اپنی صدا بلند کی۔ علاوہ ازیں 1857 کی پہلی جنگ آزادی سے 30 سال قبل کی جنگ آزادی رام گڑھ کی رانی رانی جندن، بائیزا بائی چوہان رانی، تپسوینی مہارانی وغیرہ نے اپنی فوج کی مدد سے میدان عمل میں جنگ کی سربراہی کی۔ مذکورہ تمام خواتین کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی خواتین ہیں جن کے ناموں اور کارناموں سے ہم واقف نہیں، لیکن تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر موجود ہے۔ آزادی کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہم تمام شہیدان وطن اور آزادی پسند خواتین کو دل و جان سے سلام کرتے ہیں۔ اگر ان سب کی قربانیاں شامل نہیں ہوتیں تو حصول آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوتا۔ یہ انہی شہیدوں اور جانباز اور بے باک آزادی کے پروانوں کی دین ہے کہ آج ہندوستان آزاد ہے اور دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک بھی ہے۔ بقول فراق گورکھپوری:

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے

اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

(مضمون نگار تاجک نیشنل یونیورسٹی، دوشنبہ، تاجکستان میں ویزیٹنگ پروفیسر ہیں۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔