غزہ میں قتل عام کیوں نہیں رُک رہا؟
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 60 سے زائد بین الاقوامی کمپنیاں غزہ پر اسرائیلی مظالم سے مالی فائدہ اٹھا رہی ہیں، جسے ’نسل کشی کی معیشت‘ کہا گیا ہے

غزہ کی تباہی کا منظر / آئی اے این ایس
غزہ پر اسرائیل کے عسکری حملے کو 22 مہینے ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں عالمی قوانین اور انسانی حقوق کے تحفظ کی اجتماعی عالمی وابستگی سخت سوالات کی زد میں آ گئی ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسیسکا البانیز کی تازہ رپورٹ نے ایک ہولناک حقیقت کا پردہ چاک کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 60 سے زائد بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں، جن میں ایمیزون، مائیکروسافٹ، الفابیٹ (گوگل)، لاک ہیڈ مارٹن، ایل بیٹ سسٹمز، بُکنگز ڈاٹ کام اور ایئر بی این بی جیسی کمپنیاں شامل ہیں، غزہ کے محاذ پر اسرائیلی اقدامات سے مالی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ البانیز نے اس کو ’نسل کشی کی معیشت‘ قرار دیا ہے۔
ان کمپنیوں کا کردار صرف تجارت تک محدود نہیں بلکہ وہ اسرائیل کے غزہ میں مظالم اور فلسطینی علاقوں پر طویل غیر قانونی قبضے کو مستحکم کرنے میں مدد دے رہی ہیں۔ ہتھیاروں کی تیاری، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، بایومیٹرک نگرانی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں غیرقانونی بستیوں کے لیے انفراسٹرکچر جیسے کاموں میں ان کی شراکت واضح ہے۔ البانیز کا کہنا ہے کہ عالمی کارپوریٹ ڈھانچے میں ایسا نظام موجود ہے جہاں اجتماعی تشدد منافع بخش موقع بن جاتا ہے۔
یہ رجحان نیا نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور ممالک کی خاموش منظوری یا فعال حمایت سے کمپنیاں جنگ و جدل اور بدامنی کے ادوار سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمن کمپنیوں کروپ اور آئی جی فاربین، امریکی جنرل موٹرز اور برطانوی وکرز نے افواج کو اسلحہ فراہم کیا۔ نازی دور میں تو ان کمپنیوں نے ٹینکوں سے لے کر زائکلون-بی گیس تک ہر شے مہیا کی۔ یہاں تک کہ آئی بی ایم پر یہودیوں کے قتل عام میں تکنیکی معاونت کے الزامات لگے کیونکہ اس نے وہ پنچ کارڈ سسٹم دیا تھا جس سے یہودیوں کی شناخت اور نگرانی ممکن ہوئی۔
رنگ کی بنیاد پر تفریق کے دور کے جنوبی افریقہ میں بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں حکومت کو نگرانی کے آلات اور گاڑیاں فراہم کرتی تھیں تاکہ سیاہ فام اکثریت کو دبایا جا سکے۔ عراق اور افغانستان میں ہالیبرٹن/کے بی آر اور بلیک واٹر جیسی نجی کمپنیاں، بغیر ٹینڈروں کے، اربوں ڈالر کے ٹھیکے حاصل کر کے فوجی تحفظ اور تعمیر نو کے کاموں سے منافع کماتی رہیں۔
روسی ویگنر گروپ نے افریقہ میں خاص طور پر سوڈان میں، آر ایس ایف جیسی ملیشیاؤں کو اسلحہ، تربیت اور امداد دے کر بدلے میں سونے کی کانوں کے حقوق حاصل کیے۔ چینی کمپنیوں نورِنکو اور چنگدو ایئرکرافٹ نے بھی ہند-پاک کشیدگی کے دور میں منافع کمایا۔
غزہ اس تمام تاریخی تسلسل کی ایک جدید اور مکروہ مثال ہے۔ لاک ہیڈ مارٹن نے اسرائیل کو ایف-35 جنگی طیارے دیے جو غزہ میں بمباری کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ ان طیاروں کی تباہ کن صلاحیت نے ہزاروں جانیں لیں اور پورے علاقے کو ملبے میں بدل دیا۔ 2023 سے 2024 کے درمیان اسرائیلی دفاعی بجٹ میں 65 فیصد کا اضافہ ہوا، اور بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں نے بھرپور کمائی کی۔
ایمیزون اور گوگل جیسے ٹیک جائنٹس 1.2 ارب ڈالر کے ’پروجیکٹ نمبس‘ کے تحت اسرائیلی حکومت اور فوج کو کلاؤڈ اور مصنوعی ذہانت کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اکتوبر 2023 میں جب اسرائیل کا اپنا کلاؤڈ نظام ناکام ہو گیا، تو مائیکروسافٹ نے اپنا ’ایژور‘ کلاؤڈ متبادل کے طور پر پیش کیا۔ یہ کلاؤڈ سروسز اب محض کسٹمر سپورٹ کے بجائے خودکار ’قتل کی فہرست‘ اور میدان جنگ کے تجزیہ میں مدد دینے والے ٹول بن چکی ہیں۔ البانیز کہتی ہیں کہ ان ٹیکنالوجیز کا استعمال صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ پورے فلسطینی معاشرے کو جدید فوجی تجربات کی لیبارٹری میں تبدیل کر دینا ہے۔
صرف سافٹ ویئر نہیں، بلکہ قبضے کے بنیادی ڈھانچے کو بھی منافع بخش کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ کیٹرپلر اور وولوو وہ بلڈوزر فراہم کرتی ہیں جن سے فلسطینی گھروں کو گرایا جاتا ہے۔ بُکنگ ڈاٹ کام اور ایئر بی این بی مغربی کنارے کی غیرقانونی بستیوں میں سیاحوں کو رہائش فراہم کر کے ’نوآبادیاتی سیاحت‘ کو فروغ دے رہی ہیں۔ اوربیا اور گلینکور جیسی کمپنیاں زبردستی حاصل کی گئی زمینوں پر زراعت کو سہارا دیتی ہیں۔ بلیک راک اور وین گارڈ جیسے مالیاتی ادارے ان کمپنیوں میں بڑی حصے داری رکھتے ہیں، یعنی وہ بھی جنگ سے مالی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ کسی حادثاتی عالمی نظام کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کارپوریٹ ڈھانچے کا لازمی جزو ہے جہاں جنگ، بے دخلی اور جبر سے کاروباری فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ افریقہ میں ربڑ اور معدنیات کی نوآبادیاتی لوٹ مار سے لے کر آج کے کانگو میں کولٹن کی کان کنی تک، کمپنیاں مسلسل انسانی تکالیف سے منافع کمانے کے راستے نکالتی رہی ہیں۔ پیلنٹیر جیسی کمپنیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنا میدان بنایا۔ میڈیا ہاؤسز کی آمدنی بھی جنگی بحرانوں میں بڑھ جاتی ہے۔ مالیاتی ادارے جنگی بانڈز اور دفاعی کمپنیوں کے شیئرز سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
افسوس کہ ایسی کارپوریٹ ملی بھگت کے خلاف جوابدہی کا تصور نایاب ہے۔ کچھ کمپنیوں کو ضرور قانونی اور ساکھ کی قیمت ادا کرنی پڑی ہے، جیسے ووکس ویگن اور سیمنز کو نازی دور میں جبری مشقت قبول کرنی پڑی۔ مگر زیادہ تر کمپنیاں پیچیدہ فراہمی کے نظام، قانونی خامیوں اور لابیئنگ کے ذریعے بچ نکلتی ہیں۔
البانیز کی رپورٹ زور دیتی ہے کہ بین الاقوامی قانون صرف ریاستوں پر نہیں بلکہ نجی اداروں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کمپنیوں اور ان کے اعلیٰ افسران کو جنگی جرائم، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں شراکت داری کے لیے مجرمانہ طور پر جواب دہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
تو کیا کیا جانا چاہیے؟
سب سے پہلے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو چاہیے کہ جن کمپنیوں کے نام رپورٹ میں آئے ہیں، ان پر پابندی عائد کرے، ان کے اثاثے منجمد کرے اور ممالک سے کہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے سرکاری معاہدے منسوخ کریں۔ اس کی نظیر جنوبی افریقہ میں رنگ کے نام پر تفریق کے دور میں بھی موجود ہے جہاں اقتصادی پابندیوں نے اثر دکھایا تھا۔
دوسرا، ہر ملک کے مالیاتی اداروں کو ان کمپنیوں سے اپنا سرمایہ نکال لینا چاہیے۔ پنشن فنڈز، خود مختار دولت فنڈز اور اثاثہ جات کے منتظمین اس ظلم میں خاموش شراکت دار نہیں رہ سکتے۔
تیسرا، مغربی ملکوں کی عدالتیں ’یونیورسل جُرِسڈِکشن‘ کے تحت ان کمپنیوں کے افسران کے خلاف مقدمات قائم کریں۔ بہت سے یورپی ممالک پہلے ہی جنگی جرائم کے خلاف قانون سازی کر چکے ہیں، وہ کمپنیوں کے سی ای اوز کے خلاف بھی ایسا کر سکتے ہیں۔
آخر میں، بین الاقوامی برادری کو اس سے بھی آگے بڑھنا ہو گا۔ عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے قیام کے معاہدے، یعنی ’روم اسٹیٹیوٹ’ میں ترمیم کر کے اس میں کارپوریٹ جواب دہی شامل کی جانی چاہیے۔ صرف جنرلوں اور وزیروں نہیں بلکہ ان کمپنیوں کے سربراہان کو بھی کٹہرے میں لانا چاہیے جو جان بوجھ کر ظلم کی مشینری کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔
غزہ میں ہو رہے مظالم کو روکنے اور آئندہ نسل کشیوں کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ ان کارپوریٹ سازشوں کو توڑا جائے۔ البانیز کی رپورٹ نہ صرف ایک انکشاف ہے، بلکہ انصاف کے لیے ایک خاکہ پیش کرتی ہے۔ اگر دنیا واقعی سنجیدہ ہے تو معاشی مفادات کے اس خونی کھیل کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔