ایودھیا کے دسہرا والے رام الگ کیوں ہیں؟... کرشن پرتاپ سنگھ
اس دسہرے کو جو مزید ایک بات خاص بناتی ہے، اس میں اودھ کی گنگا جمنی تہذیب کا مستقل پھلنا پھولنا ہے۔
بلاشبہ، ایودھیا کے دسہرے کی بات ہی کچھ الگ ہے۔ لیکن شاید آپ کو یقین نہ ہو کہ اپنے سارے نرالے پن کے باوجود اور بے شمار اساطیری دعووں کے برخلاف ایودھیا میں دسہرے پر دھوم دھام کی روایت زیادہ پرانی نہیں ہے۔ رام لیلاؤں کی موجودہ روایت بھی گوسوامی تلسی داس اور میدھا بھگت کی کوششوں سے وارانسی میں شہرت پانے کے بعد ایودھیا پہنچی۔ حالانکہ تلسی داس نے رام چرِت مانس (جو ان رام لیلاؤں کا بنیادی ماخذ ہے) کی تصنیف ایودھیا ہی میں شروع کی تھی۔ ان کے شاگرد کرشن دت مشرا کی ’گوتَم چندریکا‘ کے مطابق تلسی داس کو رام لیلا کی ترغیب ایودھیا میں والمیکی رامائن سننے اور اس کے پاٹھ سے ملی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے وقت میں ایودھیا میں جھانکیوں اور خاموش اداکاری کے ساتھ رام چرِت مانس کی چوپائیوں کے گیتوں پر مبنی جو رام لیلا شروع کی تھی، اس کا اصل جشن ’چیت رام نومی‘ یعنی بھگوان رام کے جنم دن پر ہوتا تھا۔ لیکن یہ روایت چند سال ہی چلی اور کسی مستحکم روایت میں تبدیل نہ ہو سکی۔ یہ موجودہ دسہرے والی رام لیلاؤں کا نقطہ آغاز بھی نہ بن سکی۔ فی الحال، ایودھیا میں زیادہ تذکرہ اُس ’ہنومت ابھینَے‘ کا ہے جو کہا جاتا ہے کہ کبھی سنسکرت میں کیا جاتا تھا، اور اُس ڈرامائی شکل کا جو ہریونش پران میں والمیکی رامائن کے حوالے سے مذکور ہے۔
اس کے بعد ایودھیا میں جو رام لیلائیں شروع ہوئیں اور آج تک جاری ہیں، وہ اپنی روایت کے لیے بنارس کے رام نگر کی اُس مشہور رام لیلا کی مشکور ہیں، جسے 1783 میں اُس وقت کے کاشی نریش اُدِت نارائن سنگھ نے شروع کرایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایودھیا کے مہاراجہ پرتاپ نارائن سنگھ (1855-1906)، جو ’دَدوا‘ کے نام سے مشہور تھے، ایک بار بنارس گئے اور وہاں کی رام لیلا دیکھ کر متاثر ہوئے۔ واپسی پر انہوں نے اپنے راج محل میں اُسی طرز پر رام لیلا کا آغاز کیا۔ پھر لکشمن قلعہ، پتھر مندر وغیرہ اور فیض آباد میں بھی رام لیلائیں شروع ہو گئیں۔ لیکن ان رام لیلاؤں نے بھگوان رام کی ’دھنوردھر، راون ہَنتا یا لنکا وجیتا‘ کی شبیہ کے بجائے ان کی ’آنندکند، پرجا وتسل، کرپالو، سم درشی اور مولیہ چیِتا‘ یعنی نرم دل، سب پر یکساں نظر رکھنے والے اور اقدار کے پاسدار شکل کو آگے بڑھایا۔ کچھ اس طرح کہ جتنی رام لیلائیں ہوئیں اتنی ہی رام کہانیاں رائج ہو گئیں۔ آج جب رام لیلاؤں کے دن دُکھ بھرے ہیں تب بھی یہی بات انہیں دیگر خطوں کی رام لیلاؤں سے الگ اور خاص بناتی ہے۔
اگر ذرا پیچھے جا کر اس انفرادیت کا سرچشمہ تلاش کریں تو پتا چلتا ہے کہ ’رامانندی سمپَردائے‘ کے بانی رامانند کی شاگرد روایت کی چوتھی نسل میں اَگرداس نے سولہویں صدی میں ’رسِک سمپَردائے‘ کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ایودھیا کے زیادہ تر سنت اور مہنت اُن کے پیروکار بن گئے۔ ضمنی طور پر یاد رہے کہ رامانند کے بارہ بڑے شاگردوں میں ایک اَننتانند تھے، جن کے شاگرد کرشن داس پیہاری بعد میں آمر کے راجہ پرتھوی راج کی رانی بالا بائی کے دیِکشا گرو بنے۔ اَگر داس انہی کرشن داس پیہاری کے شاگرد تھے۔
ان کے ’سمپَردائے‘ کے مطابق جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے، بھگوان رام ’دھنوردھر‘ سے زیادہ ’آنندکند، دشرَتھ نند، کوشل چند، دین بندھو اور دارُن بھو بھَیہاری‘ ہیں۔ ان کے کنول جیسے نین، کنول جیسے چہرے، کنول جیسے ہاتھ اور کنول جیسے پاؤں ہیں۔ ان کی ’کندرپ اگنِت امِت چھوی‘ نیلے بادل جیسی خوبصورت شکل میں جلوہ گر ہے۔ اس ’سمپَردائے‘ کے نزدیک رام کا ’دیو دانووں کا نِکَندنم‘ بعد کی بات ہے۔ اسی لیے ان کے پوجا والے رام کبھی پھول بنگلے میں جلوہ گر ہوتے ہیں اور کبھی جھولوں میں جھُولتے ہیں۔ ساون کا پورا مہینہ ’جھولنوتسو‘ کے نام ہوتا ہے، لیکن جب دسہرہ آتا ہے تو بھی ان کے یہاں ’راون ودھ‘ یا ’لنکا وجئے‘ جیسی خوفناک شکل دکھانے والے دن کوئی بڑا جشن یا میلہ نہیں ہوتا۔ رام کی یہ خوفناک شبیہ، یعنی ’دھنوردھر رام‘ کی تصویر تو صاف طور پر وشو ہندو پریشد نے اپنی رام مندر تحریک کے دنوں میں زیادہ پھیلائی۔
جیسا کہ سوشلسٹ مفکر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا (جو ایودھیا کے اُس وقت کے فیض آباد ضلع واقع اکبرپور قصبے میں پیدا ہوئے تھے) نے اپنے اہم مضمون ’رام، کرشن اور شیو‘ میں اشارہ کیا ہے، رام کی راجدھانی یعنی ایودھیا ان کی لنکا وجے کی بہادری کو اتنی اہمیت نہیں دیتی، جتنی اس بات کو دیتی ہے کہ انہوں نے لنکا فتح کرنے کے باوجود اسے اپنے قبضے میں نہیں کیا بلکہ عظیم انسانی اقدار کے نمائندہ بنے رہے۔ جہاں تک بادشاہت کی بات ہے تو کہا جاتا ہے کہ رام کو ریاست کی لالچ کیسے ہوتی؟ وہ تو ایودھیا میں اپنے ’باپ کا راج بھی بٹیوؤ کی نائیں‘ چھوڑ کر جنگل میں چلے گئے تھے۔ انہی کے قائم کردہ اقدار ایودھیا میں شری رام پنچایتن کی روایت سے چلی آتی تصویروں میں بھی دکھائی دیتی ہیں، جن میں وہ مہارانی سیتا اور اپنے تینوں بھائیوں کے ساتھ سب کے لیے اطمینان بخش شبیہ میں نظر آتے ہیں۔
ایودھیا میں دسہرہ کی ایک روایت ’مہابھارت‘ سے بھی جوڑی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دُیُت کھیل (جوا) کے بعد دُریودھن کی شرط کی وجہ سے پانڈو 12 سالوں تک ونواس (جلاوطنی) اور ایک سال ’اَگیات واس‘ میں رہے۔ ’اَگیات واس‘ کے دوران انہوں نے اپنے ہتھیار وِراٹ نگر کے قریب ایک شمی کے درخت کے تنے میں چھپا دیے تھے۔ جب وِراٹ پر حملہ ہوا تو ارجن، جو اُس وقت وِرہنّلا کے بھیس میں تھے، رتھ چلاتے ہوئے اُس شمی درخت کے نیچے پہنچے اور اپنے ’گانڈیو‘ اور دوسرے ہتھیار نکال کر پوجا کی۔ پھر دشمنوں کو بھگا دیا۔ اس جیت کی یاد میں ’وجے دشمی‘ منائی گئی اور شستر پوجا (اسلحہ پوجا) کی رسم شروع ہوئی۔ لیکن ایودھیا کے معلوم تاریخ میں شستر پوجا کی روایت کو یہاں کے سورج ونشی کشتریوں سے زیادہ اُس وقت مضبوط کیا گیا جب نواب شجاع الدولہ کے دور میں پنجاب کی طرف سے ہجرت کر کے آنے والے کھتری یہاں آباد ہوئے۔
یہ جاننا دلچسپ ہے کہ بنگال کے اثر کے تحت درگا پوجا کی دھوم مچنے سے پہلے یہاں ’مہیشاسُر مَردِنی‘ کو صرف بھگوان رام کی ’کُل دیوی‘ (گھر کی دیوی) مانا جاتا تھا۔ جیسے وشسٹھ اُن کے کُل گرو تھے اور اسی شکل میں ان کی پوجا ہوتی تھی۔ بہار کے اُس حصے میں، جو کبھی اودھ کے ماتحت رہا، کہا جاتا ہے کہ آج بھی دسہرہ کے دن وہاں راون کا پُتلا جلایا جاتا ہے لیکن ’مہیشاسُر مَردِنی‘ کی پوجا نہیں کی جاتی۔
ایودھیا کے دسہرہ کو یہ بات بھی خاص بناتی ہے کہ تُلسی داس کی "سمَنویہ" کی ریاضت اور اُن کی نظر کے مطابق اس تہوار میں اودھ کی گنگا جمنی تہذیب کا مسلسل فروغ پانا۔ صرف اس لیے نہیں کہ مسلم پتنگ ساز رام لیلا میں استعمال ہونے والے راون، کُمبھکرن اور میگھ ناد کے پُتلے بنانے میں فنکارانہ تجربات کرتے رہے، مسلم مالی اُن کے لیے پھول اُگاتے رہے یا مسلم درزی دیویوں اور بھگوانوں کے ساتھ رام لیلا کے اداکاروں کے کپڑے سیتے رہے۔ بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1857 کی جنگِ آزادی کے دوران اودھ کے کم عمر نواب بنے برجیس قدر کی والدہ بیگم حضرت محل نے دسہرہ، دیوالی اور عید سب کو مل جل کر منانے کی روایت ڈالی، جو بعد میں بھی نہیں ٹوٹی۔
لکھنؤ کے محقق یوگیش پروین (جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں) بتایا کرتے تھے کہ لکھنؤ کی ایک رام لیلا منڈلی ایسی بھی تھی جس میں تمام فنکار اور منتظم مسلمان تھے۔ اگر رام لیلا اور رمضان ایک ساتھ آ جاتے تو وہ دن میں روزہ رکھتے اور رات کو رام لیلا کرتے۔ اتنا ہی نہیں، کہا جاتا ہے کہ ماضی میں جب عیش باغ میں پہلی رام لیلا ہوئی تو اسے دیکھنے والوں میں تُلسی داس بھی شامل تھے۔ ایودھیا کے بزرگ شاعر امان اللہ قریشی عرف ’امان فیض آبادی‘ بتایا کرتے تھے کہ بچپن میں رام لیلا کے دنوں میں وہ کھانے پینے اور سونے کی فکر بھلا دیتے، کبھی منہ پر ماسک اور پیچھے پونچھ لگا کر بندر کل شکل اختیار کر لیتے اور رام کے فوجی بن کر گھومتے، اور کبھی منہ پر سیاہی مل کر اور سر پر سینگ لگا کر راون کی راکشسی فوج میں شامل ہو جاتے۔ یہ سلسلہ اگلی نسل تک بھی چلا، لیکن جب کچھ لوگوں نے ’وہیں‘ رام مندر کے نام پر ’بابر کی اولادیں‘ کہہ کہہ کر نفرت کا کاروبار شروع کیا تو یہ روایت ٹوٹ گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ ان دنوں رام لیلا کا ایسا جادو تھا کہ کوئی خاندان ہندو ہو یا مسلمان، اس کے سبھی بڑے اور چھوٹے افراد گھر لٹ جانے کا خطرہ اُٹھا کر بھی رام لیلا دیکھنے جاتے۔ وہاں بڑے اسٹیج پر کتھک میں ماہر فنکاروں کے انفرادی یا اجتماعی رقص اپنی روایتی تال، دھن اور ٹھپک کے ساتھ پیش کیے جاتے۔ ان میں مدھو راگ سے جُڑے گانے، راس، یَکش گان اور کُڈّیاٹّم بھی شامل ہوتے اور زور ’راون ودھ‘ پر کم، رام جنم، دھنُر بھنگ، رام بیاہ، سپت پدی اور راج گدی پر زیادہ ہوتا۔ ایودھیا میں جب بھگوان رام کی بارات نکلتی تو سب سے آگے وہ مسلمان ہوتے جو اپنے گھوڑوں کو سجا کر لاتے اور بارات کی شان بڑھاتے۔ ضمنی طور پر یہ بھی جان لیں کہ ایودھیا میں ’رسِک‘ روایت سے الگ ایک ’سَکھی سمپَردائے‘ بھی ہے، جو بھگوان رام کے ساتھ اپنا رشتہ ایسے مانتا ہے جیسے کسی لڑکی کا اپنی بہن کے شوہر سے ہوتا ہے، اور اسی بنیاد پر ہنسی مذاق کرتا ہے۔
ایودھیا کے آس پاس دسہرہ کے ساتھ ساتھ ’گنگا دسہرہ‘ منانے کی روایت بھی ہے۔ اس کا تعلق اس واقعے سے جوڑا جاتا ہے کہ جب رام ونواس سے لوٹے تو کچھ لوگوں نے ان پر راون جیسے برہمن کے قتل کا الزام لگایا۔ تب کُل گرو وشسٹھ کے اشارے پر انہیں جیشٹھ مہینے کی ’شکل پکش‘ کی دَشمی تاریخ کو پڑوسی ضلع سلطانپور میں ’آدی گنگا‘ کہلانے والی گومتی ندی کے کنارے ایک تیرتھ استھل پر ’وِدھی وِدھان‘ (روایت) کے مطابق اپنے گناہ دھونے پڑے۔ اس کے بعد ہی وہ ’برہمن ہتیا‘ کے گناہ سے پاک قرار دیے جا سکے۔ اب اس تیرتھ استھل کو ’دھو پاپ دھام‘ کہا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کچھ یوں بتائی جاتی ہے: ’’گرہن میں کاشی، مکر میں پریاگ۔ چیت نَومی ایودھیا، دسہرہ دھو پاپ۔‘‘ یعنی گہن پر کاشی میں، مکر سنکرانتی پر پریاگ میں، چیت رام نومی پر ایودھیا میں اور جیشٹھ شکل پکش کے دسہرہ پر ’دھو پاپ دھام‘ میں اگر نہا لیا جائے تو وِشنو لوک (بیکنٹھ) پانے کے لیے کسی اور اشنان (غسل) کی ضرورت نہیں۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی گنگا دسہرہ پر وہاں ملک کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں اور اپنے گناہ دھونے کے لیے گومتی میں ڈبکیاں لگاتے اور پوجا پاٹھ کرتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔