ہمنتا بسوا سرما کی بے چینی کیوں بڑھ رہی ہے؟

گورو گگوئی کی شبیہ، کانگریس کی حکمت عملی، عوامی جوش اور مقامی حمایت نے آسام میں بی جے پی کی حالت خراب کر دی ہے، ہمنتا سرما کی قیادت چیلنجوں سے دوچار ہے اور ان کی بے چینی کھل کر ظاہر ہو چکی ہے

<div class="paragraphs"><p>ہمنتا بسوا سرما</p></div>

ہمنتا بسوا سرما

user

سوربھ سین

مشرقی ہندوستان کے لیے آئندہ 9 مہینے خاصے سیاسی طور پر ہلچل بھرے رہنے والے ہیں۔ بہار میں 2025 کے دوسرے نصف میں جبکہ آسام اور مغربی بنگال میں 2026 کے آغاز میں اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ ان تینوں ریاستوں میں مجموعی طور پر 663 اسمبلی نشستیں داؤ پر لگی ہوں گی، جن میں سے بہار میں بی جے پی یا اس کے زیرقیادت این ڈی اے کے پاس 131، آسام میں 84 اور بنگال میں 65 نشستیں ہیں۔

جہاں بہار میں انتخابی سرگرمی زور پکڑ چکی ہے، وہیں آسام میں بی جے پی اور کانگریس دونوں اپنی حکمت عملی تیار کرنے اور طاقت تولنے میں مصروف ہیں۔ اس سمت پہلا قدم یہ رہا کہ دونوں جماعتوں نے اپنے ریاستی صدور تبدیل کیے۔ بی جے پی نے دلپ سائکیا کو، جو دو بار کے رکن پارلیمنٹ اور سنگھ کے پرانے حامی ہیں، آسام کانگریس کے صدر اور نوجوان ایم پی گورو گگوئی کے مد مقابل اتارا ہے۔ گگوئی صاف ستھری شبیہ اور لوک سبھا میں اپوزیشن کے نائب قائد کے طور پر متاثر کن کارکردگی کے ساتھ آئے ہیں، جس سے کانگریس کارکنوں میں جوش ہے، تاہم پارٹی چلانے اور سیاسی نشیب و فراز سے نمٹنے کی ان کی صلاحیت اب بھی آزمائش سے گزرے گی۔

یہ وقت آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما کے لیے بھی کڑی آزمائش ہے۔ جھارکھنڈ میں پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کے باوجود کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے اور شمال مشرق میں بی جے پی کے لیڈر کے طور پر منی پور اور دیگر ریاستوں کے بحران کے بعد ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر بی جے پی آسام کا انتخاب جیت بھی جاتی ہے، تب بھی ممکن ہے کہ سرما کو اقتدار سے باہر کا راستہ دیکھنا پڑے۔

ظاہری طور پر بی جے پی کے پاس اقتدار کا فائدہ، زبردست وسائل اور ہمنتا بسوا سرما کی قیادت ہے، جن کے 2016 میں کانگریس سے بی جے پی میں آنے کے بعد سے پارٹی کا گراف مسلسل بلند ہوا ہے۔ آسام کی تقریباً 40 فیصد مسلم آبادی کو بنیاد بنا کر انہوں نے مذہبی پولرائزیشن کی سیاست کی، جو اب تک بی جے پی کے لیے فائدے مند ثابت ہوئی۔ کانگریس کے داخلی ڈھانچے سے واقفیت کی وجہ سے وہ اس کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے رہے، جس کا نتیجہ کانگریس میں گروہ بندی اور تنظیمی بکھراؤ کی صورت میں سامنے آیا۔


اب گورو گگوئی کی آمد نے صورتحال کو بدلنا شروع کر دیا ہے اور بی جے پی کو اپنی حکمت عملی پر ازسر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سرما نے گگوئی اور ان کی اہلیہ پر پاکستان سے سازباز تک کے الزامات لگائے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر پردیوت بورادولوئی کا کہنا ہے کہ "سرما گھبرائے ہوئے ہیں۔ گگوئی کی شبیہ بے داغ ہے اور ان پر اقتدار کی تھکن کا بوجھ بھی نہیں۔"

اگرچہ اعداد و شمار کے لحاظ سے بی جے پی مضبوط ہے۔ سال کے آغاز میں ہوئے پنچایتی انتخابات میں اس نے 76 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور 376 میں سے 300 ضلع پریشد نشستیں جیتیں، جب کہ علاقائی پنچایتوں میں بھی 66 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے 2192 میں سے 1436 نشستیں حاصل کیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی مطمئن ہے کہ وہ کم از کم 100 اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔

لیکن گگوئی کے لیے چیلنج آسان نہیں۔ ان کی آسام کانگریس کے صدر کے طور پر آمد پر ان کے حلقۂ انتخاب جورہاٹ میں زبردست خیر مقدم کیا گیا۔ 250 کلومیٹر طویل روڈ دو میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ یکم جون 2025 کو انہوں نے تاریخی شیو دول مندر کا دورہ کیا، اور میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’’بی جے پی کی پالیسی پیسہ اور زمین کی بھوک پر مبنی ہے۔ ہمنتا سرما گواہاٹی کے ترقیاتی وزیر رہے اور اب ان کے قریبی اس عہدے پر فائز ہیں لیکن بی جے پی کے وزراء کو شہری سہولیات سے زیادہ فکر اپنے گھروں تک سڑک پہنچانے کی ہے۔‘‘

گگوئی کی اتحاد کی اپیل اور ہمنتا سرما پر حملہ متوقع تھا لیکن مندر کا دورہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ آسام کے دیہی سماجی و ثقافتی منظرنامے میں نامگھروں اور ستروں کی بے دخلی کے واقعات کے پیش نظر کانگریس کو ایک نیا بیانیہ تشکیل دینا ہوگا۔ بدعنوانی اور ترقی کے معاملے پر سرما کی گھیرابندی کے ساتھ ساتھ کانگریس کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا بھی مؤثر جواب تیار کرنا ہوگا۔


کانگریس رہنما حافظ رشید چودھری کا کہنا ہے کہ "یہ ایک مفروضہ ہے کہ آسام کے تمام مسلمان ووٹ کانگریس کو ملتے ہیں، جیسا کہ ہمنتا سرما نے بہت مہارت سے مشہور کر رکھا ہے۔" تاہم وہ ذیلی آسام اور وادی براک میں اے آئی یو ڈی ایف اور بالائی آسام میں اے جی پی کی کمزور ہوتی گرفت کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کا فائدہ براہ راست کانگریس کو ملے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’گگوئی نے نئی حلقہ بندی کے باوجود جورہاٹ سے لوک سبھا انتخاب جیتا۔‘‘ اس الیکشن میں کانگریس کا ووٹ شیئر 10.5 فیصد بڑھا، جب کہ اے جی پی تقریباً ختم ہو گئی۔

لیکن ہمنتا سرما کے لیے صرف انتخابی چیلنج ہی کافی نہیں۔ ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ سربانند سونووال کا ریاستی سیاست میں واپسی کا امکان بھی انہیں بے چین کیے ہوئے ہے، جو پارٹی کے نچلی سطح کے کارکنوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ بی جے پی کی کارکردگی اس بات پر بھی منحصر ہوگی کہ آر ایس ایس سے وابستہ نئے ریاستی صدر دلپ سائکیا اور ہمنتا سرما مل کر ٹکٹوں کی تقسیم کس طرح کرتے ہیں۔

بی جے پی کے پاس عددی طاقت تو ہے لیکن اسے اقتدار مخالف لہر، کرپشن کے الزامات اور اندرونی انتشار سے نمٹنا ہوگا۔ دوسری جانب کانگریس کے لیے ایک متحد، متحرک مہم، قابلِ بھروسہ بیانیہ اور بہتر آسام کا خاکہ ہی کامیابی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پارٹی کارکنوں کا خیال ہے کہ انہیں تمام نسلی اور قبائلی طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے بھی مؤثر حکمت عملی اپنانا ہوگی، جن کی سیاست اب نظریے سے زیادہ مفادات پر مبنی ہو چکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔