عوامی مسائل پر بات کرنے سے کیوں گھبرا رہی بی جے پی؟...نواب علی اختر

نریندر مودی ملازمتوں اور کرپشن سے متعلق سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ انہیں فرقہ وارانہ تقسیم اور مذہبی جذبات کو بھڑکانا زیادہ دلکش لگتا ہے

<div class="paragraphs"><p>پہلے مرحلے میں ووٹنگ کا منظر / یو این آئی</p></div>

پہلے مرحلے میں ووٹنگ کا منظر / یو این آئی

user

نواب علی اختر

ملک میں انتخابی عمل اب اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ سات مراحل میں رائے دہی ہونے والی ہے جس کے پہلے مرحلے میں جمعہ کو 21 ریاستوں کی 102 پارلیمانی سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ اب دوسرے مرحلے میں 26 اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے، جس سے قبل رائے دہندگان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے۔ اسی طرح ملک کے دوسرے حصوں میں بھی انتخابی مہم بتدریج شدت اختیار کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے رائے دہی کے پرسکون انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کئے گئے ہیں تاہم جہاں تک انتخابی مہم کی بات ہے تو اس میں کئی سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر بی جے پی اور اس کے قائدین کی جانب سے عوامی مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

بی جے پی اور اس کی ہمنوا جماعتوں کی طرف سے موجودہ عوامی مسائل کے بجائے مذہبی جذبات کے استحصال کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ بی جے پی اور اس کے قائدین کی پوری توجہ بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے پر ہی مرکوز نظر آ رہی ہے تاکہ حسب عادت مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کی اس کی کوشش کامیاب ہو سکے اور اسے انتخابات میں کامیابی مل جائے۔ پارٹی کے ساتھ ملک کے وزیر اعظم بھی عوامی مسائل پر بات کرنے اور گذشتہ 10 برسوں میں اپنی حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنے سے بچتے نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے مہنگائی، بے روزگاری اور ملازمتوں کے بحران پر قابو پانے کے اقدامات کرنے کے بجائے عوام کو رام رام کا نام جپنے کا مشورہ دیا ہے۔

بی جے پی کی انتخابی مہم سے واضح ہو چکا ہے کہ رام مندر کی تعمیر، انتخابات کے حوالے سے ایک بڑا عنصر بننے میں ناکام ہو گئی ہے پھر چاہے وہ ہندو ووٹرز کے لیے ہو یا پھر ملک میں آباد دیگر اقوام کے لیے۔ ایک طرح سے یہ مودی کی مہم میں اٹھائے گئے غلط اقدامات کی جانب اشارہ کرتا ہے کیونکہ وزیر اعظم نے اپنی تمام تر توجہ رام مندر کی تقریب کی ٹی وی کوریج شہروں اور دیہاتوں تک پہنچانے میں لگا دی۔ سادھو جیسے حلیے میں وزیر اعظم کی تصاویر نے حکمران جماعت کے لیے بھی مزید پریشانی پیدا کی۔ رائے دہندگان کے لیے رام مندر اور اس جیسے دیگر مذہبی مسائل انتہائی کم اہمیت کے حامل ہیں۔ مودی ملازمتوں اور کرپشن سے متعلق سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ انہیں فرقہ وارانہ تقسیم اور مذہبی جذبات کو بھڑکانا زیادہ دلکش لگتا ہے۔

ایک جانب جہاں نریندر مودی بے روزگاری اور کرپشن کے بنیادی مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں وہیں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کی اہم اتحادی کانگریس کے تمام امیدواروں نے اپنی توجہ ملازمتوں، رائے دہندگان کے ساتھ روابط اور ہندوستان کی سیکولر شناخت پر مرکوز رکھی ہے۔ ایک طرح سے یہ اپوزیشن کے موقف کا خلاصہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’انڈیا‘ نے بی جے پی کو پریشان کر دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پہلی بار موجودہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو نریندر مودی نے ایجنسی کے ذریعے گرفتار بھی اسی لیے کروایا کیونکہ وہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے اتحاد سے خوفزدہ تھے۔ لیکن اس سب نے اپوزیشن اتحاد کو مزید مقبولیت دی اور اب اس کی بازگشت پنجاب، گوا اور سب سے اہم وزیراعظم کی اپنی آبائی ریاست گجرات میں بھی سنائی دے رہی ہے۔


واضح رہے کہ پہلے مرحلے کا ووٹنگ فیصد کافی مایوس کن رہا ہے، جس کی وجہ سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ عوام بی جے پی کی دھواں دھار انتخابی مہم میں رام مندر اور دیگر مذہبی جذبات کا استحصال کرنے والے بلند بانگ دعووں سے عاجز آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں کیونکہ بی جے پی کی انتخابی مہم میں عوام کی بات نہیں ہو رہی ہے۔ حالانکہ عوام یہی امید کر رہے تھے کہ کئی برسوں بعد ان کے مطلب کی باتیں ہوں گی، انہیں بتایا جائے گا کہ مستقبل میں ان کے لئے کیا کیا کرنے کا منصوبہ ہے۔ کیونکہ گزشتہ 10 برسوں میں بی جے پی حکومت میں عوام کو مہنگائی، بے روزگاری کا ہی سامنا رہا ہے۔ نوکری کے لئے نوجوان در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد تھک ہار کر بیٹھ گئے ہیں۔ مگر حکمرانوں کی جانب سے ایک بار پھر جذبات سے ہی کھیلا جا رہا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران خاص طور پر بی جے پی اور اس کے امیدواروں کی جانب سے گذشتہ دس برس کی کارکردگی پر کوئی رپورٹ پیش کرنے کی بجائے عوام کو غیر اہم مسائل میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف ریمارک کرتے ہوئے انتخابی عمل کو سیاسی رسہ کشی کے میدان میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ شخصی ریمارکس کرتے ہوئے انتخابی عمل کی اہمیت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اپوزیشن قائدین پر اس طرح کے رکیک الزامات عائد کئے گئے جن کی سابق میں کوئی نظیر شاید ہی مل پائے۔ انتخابی مہم کے دوران یہ نہیں بتایا گیا کہ 10 سال قبل سالانہ دو کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اس کو پورا کیوں نہیں کیا گیا۔ یہ جواب نہیں دیا گیا کہ روزگار فراہم کرنا تو دور کی بات ، سابقہ تعداد میں نوکریوں کو برقرار تک نہیں رکھا گیا ہے۔

اس کے علاوہ 100 دن میں مہنگائی ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس کے برعکس مہنگائی 100 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ اس تعلق سے نہ ملک کا گودی میڈیا حکومت سے سوال پوچھ رہا ہے اور نہ ہی حکومت یا اس کے ذمہ داران کی جانب سے کوئی جواب دیا جا رہا ہے۔ گودی میڈیا الٹا اپوزیشن کو چاروں خانے چت کرنے کی مہم میں لگا ہوا ہے اور حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جو کوئی حکومت سے سوال کر رہے ہیں ان کی ملازمتیں چھینی جا رہی ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عوام کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ کس پارٹی یا کس امیدوار نے عوام کے مسائل پر توجہ دی ہے اور کس نے انہیں بنیادی اہمیت کے حامل مسائل سے بھٹکانے اور ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی تمام کوششوں کے باوجود رائے دہندگان میں کوئی جوش و خروش نظر نہیں آ رہا ہے۔ اگر ہم راجستھان کے 12 لوک سبھا حلقوں میں 19 اپریل کو ہونے والی ووٹنگ پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ لوگ اس بار ووٹنگ کے لیے زیادہ پر جوش نہیں تھے۔ جے پور دیہی لوک سبھا حلقہ میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے 8.96 فیصد کم ووٹنگ ہوئی۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں جے پور دیہاں میں 65.54 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی، جب کہ اس بار 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں صرف 56.58 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ الیکشن کمیشن نے ووٹنگ فیصد بڑھانے کے لیے تمام کوششیں کیں لیکن عام انتخابات کے پہلے مرحلے کی ووٹنگ سے وہ کارگر ثابت نہیں ہوئیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ووٹر مایوسی کا شکار ہیں۔


موجودہ صورتحال میں پارلیمانی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انتخابی مہم میں جتنی شدت دیکھی جا رہی ہے اور جتنی مزید پیدا ہوگی اس کو دیکھتے ہوئے رائے دہندگان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جذباتیت کا شکار نہ ہو جائیں۔ ہوش و حواس کو قابو میں رکھتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل اور حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔ کارکردگی کو پرکھیں اور وعدوں اور منصوبوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی اپنے ووٹ کے تعلق سے فیصلہ کریں۔ رائے دہندگان کو اپنی فہم و فراست کے ساتھ ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے ملک اور ملک کے عوام کے مستقبل کا تعین کرنا ہوگا۔ ان کا ایک ایک ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ 6 ہفتوں پر محیط یہ عمل 19 اپریل کو شروع ہوگیا ہے۔ جبکہ ووٹنگ کا آخری مرحلہ یکم جون کو ہوگا اور ووٹوں کی گنتی 4 جون کو ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔